حکومت کا 80 سے زائد مصنوعات کی درآمدات پر پابندی کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 18 مئ 2022
موبائل فونز اور سیرامک ٹائلز کی درآمد پر 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے — فائل فوٹو: رائٹرز
موبائل فونز اور سیرامک ٹائلز کی درآمد پر 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے — فائل فوٹو: رائٹرز

وزیر اعظم نے درآمدی بل میں ماہانہ ایک ارب ڈالر کمی کے لیے وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) کی تجاویز منظور کرتے ہوئے 80 سے زائد مصنوعات کی درآمدات پر پابندی لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق تجاویز کی حتمی منظوری اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) اور وفاقی کابینہ سے لی جائے گی۔

ذرائع نے کہا کہ جن 80 سے زائد اشیا پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور سپر اسٹورز پر فروخت کے لیے درآمد کی جاتی ہیں جبکہ ان اشیا میں کتے اور بلیوں کی خوراک، چیز، مکھن اور دیگر اشیا شامل ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ 1800 سی سی اور اس سے زائد کی گاڑیوں کی درآمد پر 100 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی اور 35 فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی عائد کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اتحادی جماعتوں کی ’سخت ‘ فیصلوں پر حکومت کا ساتھ دینے کی یقین دہانی

اسی طرح موبائل فونز اور سیرامک ٹائلز کی درآمد پر 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ درآمدی مشینری پر بھی 10 سے 30 فیصد ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز ہے، اس کے علاوہ بجلی کی پیداوار میں استعمال ہونے والی مشینری پر بھی 10 فیصد اضافی ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔

ذرائع کے مطابق 10 ماہ کے دوران پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 13 ارب ڈالر سے بڑھ چکا ہے اور صرف اپریل میں ملکی درآمدات 6 ارب 60 کروڑ ڈالر رہی تھیں۔

خیال رہے کہ ڈان کی رپورٹ میں فاریکس ایسوسی ایشن کے چئیرمین ملک بوستان نے ڈالر کی قیمت کو روکنے کے لیے غیر ضروری اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کی تجویز دی تھی۔

ملک بوستان کا کہنا تھا کہ زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم رکھنے کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کے استعمال کو بھی محدود کیا جائے اور بڑی بسوں میں ڈیزل کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے، تاکہ ہماری تیل کی کھپت جس میں 30 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے اس میں مزید اضافے کو روکا جاسکے۔

ای سی اے پی کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے بتایا تھا کہ اگر کسی کو لگتا ہے کہ زیادہ درآمدی مصنوعات کی ضرورت ہے تو انہیں خود ہی ڈالرز کا بندوبست کرنا چاہیے۔

اتحادی جماعتوں کی 'سخت' فیصلوں میں ساتھ دینے کی یقین دہانی

دوسری جانب گزشتہ روز معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے اتحادی جماعتوں نے ’سخت‘ فیصلوں پر حکومت کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کروائی تھی۔

ڈان کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم نے تینوں اتحادی جماعتوں کے سربراہ پاکستان پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری، جے یو آئی (ف) کے مولانا فضل الرحمٰن اور ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی سے ملاقاتیں کی تھیں۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان و پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا تھا کہ ان کی پارٹی مشترکہ طور پر ’سخت‘ فیصلوں کے نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے۔

ادھر ایم کیو ایم نے اس بنیاد پر نئے انتخابات کی مخالفت کی کہ یہ عام شہریوں کے لیے مالیاتی خسارے کا باعث ہوگا، باوجود اس کے کہ فیصلہ پارٹی کے حق میں ہوگا۔

انہوں نے وزیراعظم پر زور دیا کہ وہ تیزی سے کام کریں اور معاشی بحالی سے متعلق فیصلے لیں۔

دریں اثنا نواز شریف کے ساتھ لندن میں مقیم سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کو حالات سے گھبرانا نہیں چاہیے اور اسے سر اٹھانا چاہیے۔

انہوں نے سوال کیا کہ اگر آج ہم شدید معاشی حالات سے نہیں نمٹتے تو کیا فرشتے ہمیں بچانے کے لیے اتریں گے؟

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا تھا کہ پاکستان کے معاشی حالات اس حد تک خراب نہیں ہوئے کہ اسے بہتری کی طرف واپس نہیں لایا جا سکتا۔

پاکستان کی معاشی صورتحال

واضح رہے کہ بدھ کو ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح عبور کرگیا، اوپن مارکیٹ میں ڈالر 200 روپے میں فروخت ہورہا ہے جبکہ انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت 197 روپے سے تجاوز کر گئی۔

مین ہیٹن بینک کے سابق خزانچی اسد رضوی نے مٹیس گلوبل کو بتایا کہ ’ریکارڈ ترسیلات کا مسلسل بہاؤ بھی ڈالر کی پرواز کو روکنے میں مددگار ثابت نہیں ہو رہا ہے‘۔

ڈالر کی بلاتعطل پرواز سے خبردار کرتے ہوئے اسٹیک ہولڈر نے کہا ہے کہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی پاکستان میں مہنگائی دوسری لہر کو جنم سے سکتی ہے، یہ لہر نچلے، متوسط طبقے کو شدید متاثر کرے گی۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری رہا تو کوئی بھی اقتصادی شعبہ ترقی نہیں کرے گا، کلیدی شعبے جن میں ڈیبٹ سروسنگ، صنعتوں کے درآمدات کرنے والے اور اشیائے خورونوش سے متعلق شعبے سب سے پہلے متاثر ہوں گے۔

27 اپریل 2022 کو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کو قابو میں لائے۔

قبل ازیں 24 اپریل کو ڈان کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مارچ میں ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ گزشتہ ماہ کے مقابلے دگنا ہو کر تقریباً ایک ارب ڈالر پر پہنچ گیا تھا، رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ (جولائی سے مارچ) کے دوران مجموعی خسارہ 13 ارب ڈالر تک جاپہنچا ہے۔

دوسری جانب اشیائے خورونوش اور توانائی کا درآمدی بل 24 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔

ملک کا مجموعی درآمدی بل مالی سال 2022 کے ابتدائی 10 مہینے میں 46.51 فیصد اضافے کے بعد 65 ارب 53 کروڑ ڈالر ہوگیا، جبکہ پچھلے سال کے اسی عرصے میں مجموعی درآمدی بل 44 ارب کروڑ ڈالر تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں