وزیراعلیٰ گلگت کا لانگ مارچ سے روکنے والے افسران کو برطرف کرنے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 28 مئ 2022
وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ڈی چوک کے راستے میں جہاں جہاں پولیس ملی ہم پر فائرنگ کی گئی— فوٹو: ڈان نیوز
وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ڈی چوک کے راستے میں جہاں جہاں پولیس ملی ہم پر فائرنگ کی گئی— فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے انہیں اور ان کی کابینہ کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے لانگ میں مارچ میں شرکت سے روکنے والے افسران کے خلاف کارروائی کرنے اور انہیں برطرف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اسلام آباد میں میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید نے کہا کہ اسلام آباد کے راستے میں ہمیں روکنے کے لیے باوردی افسران آئے تھے، انہوں نے اپنی وردی سے نام کے ٹیگ ہٹائے ہوئے تھے، انہوں نے میری سرکاری گاڑی کو روکا جس پر جھنڈے لگے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے باوردی افسران سے بات کی کہ کنٹینر ہٹا کر ہمیں جانے دیں ہم پشاور جارہے ہیں، آپ کو روکنا ہے تو پشاور سے آنے والے قافلے کو روکیں یا اسلام آباد جانےوالوں کو روکیں۔

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے کہا کہ ہم نے انہیں کہا کہ ہمیں جانے دیں تو انہوں نے کہا کہ آپ نقصان اٹھائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ دھمکیاں کیوں دے رہے ہیں کیا آپ مجھے گولیاں ماریں گے، یہ 3بجے کے وقت کی بات ہے جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا تھا کہ راستے کھولے جائیں۔

مزید پڑھیں: لانگ مارچ کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں کو ملک بھر میں مقدمات کا سامنا

خالد خورشید کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد ایک کنٹینر ڈائیور نے اپنی مدد آپ کے تحت کنٹینر ہٹایا، اس وقت پولیس افسران کٹی پہاڑی پر چلے گئے تھے جب ہم آگے گئے تو دیکھا کہ بڑا قافلہ آرہا تھا جس پر عمر ایوب نے کہا کہ یہاں سے واپس جانا بہتر ہے کیونکہ اتنے بڑے قافلے میں عمران خان سے ملاقات نہیں ہو پائے گی۔

ہم نے واپس آکر پولیس سے بات کر کے کنیٹنرز مکمل طور پر ہٹوانے کی کوشش کی تو انہوں نے کٹی پہاڑی سے فائرنگ کرنا شروع کردی۔

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے کہا کہ فائرنگ کرنے والے مجھے نشانہ بنانا چاہتے تھے، کنٹینرز کی چابیاں بھی ان کے پاس تھی، انہوں نے بے انتہا فائرنگ کی جب لوگوں کا ہجوم آیا تو انہوں نے راستہ کھولا تو ہم ڈی چوک کے راستے پر روانہ ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈی چوک کے راستے میں جہاں جہاں پولیس ملی ہم پر فائرنگ کی گئی۔

خالد خورشید کا کہنا تھا کہ ہم ان کے خلاف کارروائی کریں گے ہم نے صدر پاکستان، چیف آف آرمی اسٹاف اور چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے کہ اس معاملے میں مداخلت کریں اور جو ذمہ دار ہیں انہیں سزا دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ معاملے کو دیکھیں اگر اس سارے معاملے کے ذمہ دار ہم ہوں گے تو نہ صرف ہم سزا بھگتنے کو تیار ہیں بلکہ اپنے عہدوں سے استعفے بھی دیں گے۔

مزید پڑھیں: گلگت بلتستان کی صوبائی حیثیت پر اتفاق رائے

انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ عام عوام کے ساتھ پیش نہیں آیا بلکہ یہ ایک صوبے کی کابینہ کے ساتھ پیش آیا ہے، یہ کون سا طریقہ ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی کابینہ کو وفاقی دارالحکومت میں آنے سےروکا جارہا ہے، کیا مراد علی شاہ بلاول بھٹو کے کنٹینر میں مارچ کے ساتھ اسلام آباد نہیں آئے تھے۔

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کا کہنا تھا کہ جس طرح کی روایتیں یہ بناتے ہیں ہم بھی بنا سکتے ہیں، کیا نواز شریف نے کہا کہ تھا کہ بے نظیر ائیر پورٹ سے باہر نکلیں گی تو انہیں گرفتار کرلیا جائےگا اور اس وقت کی وزیر اعظم کو ائیر پورٹ سے باہر نہیں نکلنے دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم بھی ایسی روایت قائم کرسکتے ہیں کہ شہباز شریف کو صوبے میں داخل نہ ہونے دیں، لیکن ہم زیادہ برداشت کرتے ہیں کیونکہ ہم حساس علاقے میں بیٹھے ہیں دشمن ہماری حرکتوں پر نظر جمع کر بیٹھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ فیڈرل کو کمزور کرنے کی کوشش ہے، انہیں کس نے اتنا حوصلہ دیا ہے کہ یہ جو چاہیں کریں، ہم اس کا ازالہ چاہتے ہیں، سب سے پہلے آئی پنجاب کو عہدے سے ہٹایا جائے۔

مزید پڑھیں: گلگت بلتستان حکومت نے چینی شہریوں کی سیکیورٹی مزید سخت کردی

وزیر اعلیٰ نے انکشاف کیا کہ گلگت میں دہشت گردی ہوئی اور دہشت گرد فوجی وردیوں میں ملبوس تھے، رانا ثنا اللہ پر ان کے اپنے ہی ساتھی عابد شیر علی نے 14 قتل کے الزام لگائے ہیں، ان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ بدمعاش پالتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں کوئی سیاسی ٹکراؤ یا اداروں کی لڑائی نہیں چاہتا لیکن ایسے حالات نہ بنائے جائیں کہ ہم کوئی فیصلہ لیں، میں نے سی ایس کو 3 بجے کال کی ہے، میرا کال ریکارڈ دیکھا جائے۔

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے مطالبہ کیا کہ ہمیں آئی جی پنجاب، چیف سیکریٹری پنجاب اور وہ افسر جس نے ہم پر فائرنگ کی ان سب کو عہدے سے ہٹایا جائے، چیف سیکریٹری پنجاب کو میں حالات سے آگاہ کر چکا تھا اس کے باوجود لیکن اس سے فون نہیں اٹھایا۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم سیاسی پارٹی کے کارکن ہیں کیا ہمارا اسلام آباد آنا منع ہے، جب میں نے فوٹیجز دیکھی تو مجھے لگا کہ سری نگر کی فوٹیج ہیں بعد میں علم ہوا کہ یہ لاہور ہے، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ڈی چوک پر لوگوں کو نہیں آنا چاہیے تو آپ نے بلاول بھٹو سے پوچھا کہ وہ ان کے وزرا ڈی چوک کیوں آئے تھے۔

مزید پڑھیں: گلگت بلتستان انتخابات: پی ٹی آئی 9 نشستوں کے ساتھ سب سے آگے

انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کی حساسیت کو دیکھا جائے اور اپنی غلیظ سوچ کو سیاست سے نکال دیں ورنہ پورا ملک تباہ ہوجائےگا، ہم مان لیتے ہیں گلگت بلتستان والوں کو لانگ مارچ میں نہیں آنا چاہیے تھے ، لیکن گلگت بلتستان کی عوام کا کیا قصور ہے کہ ان کے بجٹ میں کمی کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم این ایف سی میں نہیں ہیں، یہ فیڈریشن کی کمزوری ہے کہ آئین میں نہیں ہیں اور ہم این ایف سی میں نہیں ہیں، جس صوبے سے ملک کا 70 فیصد پانی آرہا ہے اس صوبے میں کوئی پاور پراجیکٹ نہیں ہے، جو صوبہ سی پیک کا گیٹ وے ہے اس کے لیے سی پیک میں کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ 70 سال میں جتنی بھی حکومتیں آئیں کسی نے گلگت بلتستان کو نہیں چھیڑا لیکن موجودہ حکومت پچھلے ڈیڑھ ماہ سے گلگت بلتستان کو تبدیل کرنے کی کوششوں مصروف ہیں اور جی بی تحریک عدم اعتماد لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وفاق اور گلگت بلتستان حکومت کے درمیان تنازع

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہمارے بجٹ سے 5 ارب روپے کاٹے ہیں، ہمیں صرف 10 ارب روپے دیے گئے ہیں 10 ارب روپے میں تو صرف نالے صاف ہوتے ہیں، عمران خان نے ہمیں 400 ارب روپے کا ترقیاتی منصوبے کا بجٹ دیا تھا۔

خالد رشید نے کہا کہ نواز شریف گلگت بلتستان کے لیے بجٹ چھوڑ کر گئے تھے عمران خان نے اس میں کئی گنا ترقی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف بغیر اطلاع کے گلگت بلتستان آئے تھے اس لیے ان سے ملاقات نہیں ہوسکی لیکن قمر زمان کائرہ کا استقبال بھی کیا اور انہیں عشائیہ بھی دیا اور میں نے انہیں کہا سیاسی مسائل کے بجائے عوام کے مفاد پر توجہ دی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حکومت کو ہوش ہی نہیں ہے، ڈیڑھ مہینہ ہوگیا ہے گلگت بلتستان میں گورنر ہی نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں