Dawnnews Television Logo

کوٹ ڈیجی کے قلعے، جہاں ہزاروں برس کے زمانے سانس لیتے ہیں! (آخری حصہ)

اس محفوظ اور اپنی طرز کے شاندار قلعے کی تعمیر ویسے ہی ہوئی جیسے اکثر بادشاہوں کے خوابوں کی تعبیر ہوتی ہے۔
اپ ڈیٹ 30 مئ 2022 01:20pm

اس تحریر کا پہلا حصہ یہاں پڑھیے۔

’آخر ضرورت کیا تھی اتنا بڑا قلعہ تعمیر کرنے کی؟‘، یہ سوال ہر وہ فرد کرسکتا ہے جس کو گزرے زمانوں کے سیاسی حالات سے متعلق زیادہ معلومات نہ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ چیزوں کے بنانے کا کوئی خاص سبب نہ ہو لیکن بہت ساری چیزوں کے بننے کے اسباب موجود ہوتے ہیں، تاہم ان اسباب یا حالات کو اگر ہم اپنے موجودہ معروضی حالات کی عینک سے دیکھنے کی کوشش کریں گے تو سمجھنے میں بہت مشکل ہوسکتی ہے۔

میں زیادہ نہیں آپ کو 1700ء یعنی آج سے فقط 322 برس پیچھے لے چلتا ہوں جہاں ارغون اور ترخان اپنی حکومتیں کرکے جاچکے ہیں اور ننگر ٹھٹہ پر مغل گورنر مقرر ہوتے ہیں۔ ایسے میں میاں یار محمد کلہوڑو سندھ میں کلہوڑا حکومت کی بنیاد رکھتے ہیں کہ مغل سلطنت کی ہندوستان پر تنی ہوئی حکومتی چھتری خستگی کا شکار ہوئے جاتی تھی لیکن پھر بھی جاہ و جلال کی لپکوں میں کچھ گرمی ابھی باقی تھی۔

میاں یار محمد کو اورنگزیب نے ’خدا یار خان‘ کا خطاب عطا کیا اور وہ اس ملے اعزاز کو غرور بنا کر سندھ کا حاکم بنا۔ یار محمد کے بعد میاں نور محمد، میاں مرادیاب، میاں غلام شاہ، میاں سرفراز خان اور میاں غلام نبی تخت پر براجمان ہوئے۔ ان کے بعد میاں عبدالنبی جب تخت پر بیٹھا تو اس کی حوس اور پاگل پن نے سندھ کو بدامنی اور کشت و خون کی آگ میں دھکیل دیا۔

تالپور خاندان کلہوڑا حکمرانوں کا مددگار رہا تھا مگر میاں عبدالنبی نے سب رشتوں کو حوس کی آگ میں جھونک دیا۔ اس نے ایسے منفی عمل کیے جس کے نتیجے میں وہ حالات کے گرداب میں ایسا پھنسا کہ اس میں نہ اِس کنارے پہنچنے کی سکت رہی نہ اُس کنارے۔ اس حوس کے نتیجے میں 1782ء میں’ھالانی‘ (نوشہرو فیروز ڈسٹرکٹ کا ایک چھوٹا سا شہر، جو نیشنل ہائی وے 5 کے مغرب میں ہے) میں میر فتح علی خان کی میاں عبدالنبی خان سے جنگ ہوئی جس میں میاں عبدالنبی نے شکست کھائی۔ اس جنگ میں میر فتح علی خان کے ساتھ میر باگو خان، میر الہیار خان، ٹھارو خان اور میر سہراب خان ہم قدم رہے۔ بنیادی طور پر اس جنگ میں تالپور جیتے اور افغانستان کے احکامات، آشیرواد اور پروانہ ملنے سے سندھ کی حکومت کا تخت میروں کے حوالے ہوا۔

احمد آباد قلعہ
احمد آباد قلعہ

اس قلعے کی تعمیر کے پیچھے کئی اسباب ہیں
اس قلعے کی تعمیر کے پیچھے کئی اسباب ہیں

قلعہ احمد آباد کا ایک منظر
قلعہ احمد آباد کا ایک منظر

رات کے وقت قلعے کا خوبصورت منظر—تصویر: بلاول سولنگی
رات کے وقت قلعے کا خوبصورت منظر—تصویر: بلاول سولنگی

تخت و تاج کی جڑوں کو، جنگ کے میدانوں میں بہا ہوا خون ہرا بھرا رکھتا ہے۔ تخت کی تمنا رکھنے والے اپنا پورا زور لگاتے ہیں کہ جنگ کا میدان وہ جیتیں۔ جنگ جیتنے کے لیے وہ دن رات ایک کردیتے ہیں اور جب جنگ جیت جائیں اور دل میں تمناؤں کے نخلستان آباد ہونے کے بجائے ریگزاروں میں تبدیل ہونے لگیں تو راستے جدا ہو ہی جاتے ہیں۔ حیدرآباد کی حکومت ’مرکزی حکومت‘ تھی جس کے تخت پر میر فتح علی خان اپنے 3 بھائیوں کے ساتھ براجمان ہوا۔ میر سہراب جو اس جنگ کا ایک انتہائی متحرک کردار تھا، اس پر کیا بیتی یہ میں آپ کو محترم نسیم امروہوی کے الفاظ میں سنانا چاہتا ہوں۔

نسیم امروہوی لکھتے ہیں کہ ’میر فتح علی خان کے اس فیصلے سے مایوسی پھیلی خاص کر میر سہراب بہت مایوس ہوئے مگر انہوں نے بڑے تحمل سے کام لیا اور خاموشی سے روہڑی آگئے۔ میر فتح علی خان سے میر سہراب کی علیحدگی کے اتفاقی حادثے کو، میاں عبدالنبی نے افغانستان کے تیمور شاہ کے دربار میں کچھ مرچ مصالحے لگا کر پیش کیا۔ ان باتوں کا جب میر فتح علی خان کو پتا چلا تو اس نے سندھ کو 1784ء میں بلوچ سرداروں میں 3 حصوں میں تقسیم کردیا۔ میر فتح علی خان نے ملکی آمدنی کے 7 حصے کیے جن میں سے 4 حصے اپنے اور اپنے بھائیوں کے لیے مخصوص کیے، 2 حصے میر سہراب اور ایک حصہ میر ٹھارے خان کو دیا۔ اس انتظام کی رو سے خیرپور اور اس کے مضافات پر دُور دُور تک میر سہراب خان کی باقاعدہ حکومت قائم ہوگئی'۔

یہ وہ سیاسی حالات تھے جن میں، میر سہراب خان نے ضروری سمجھا کہ یہ قلعہ تعمیر کروایا جائے اور اسی طرح 1797ء میں یہ ’احمد آباد قلعہ‘ بن کر تیار ہوا۔ سندھ کے قلعوں پر سائنسی بنیادوں پر تحقیق کرنے والے محترم اشتیاق انصاری صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ’ریاست خیرپور کے پہلے حکمران میر سہراب نے اپنی ریاست کے تحفظ کے لیے کچھ قلعے تعمیر کرائے جن میں سے تھر کے علاقے میں ’امام گڑھ‘، جودھپور اور جیسلمیر کی سرحد پر ’شاہ گڑھ‘ اور یہ ’احمد آباد‘ جو اب کوٹ ڈیجی کے نام سے مشہور ہے شامل ہیں‘۔

رحیم داد مولائی شیدائی لکھتے ہیں کہ ’سندھ میں میروں کی اکٹھی فوجوں کی تعداد اندازاً 11 ہزار سوار اور 19 ہزار پیادے تھے، سندھ میں ان کے 23 قلعے تھے جو اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے بنائے گئے تھے‘۔ اگر اس زمانے کے قلعوں کا جائزہ لیا جائے تو کوٹ ڈیجی کا قلعہ اپنی طرز کا منفرد قلعہ ہے۔

اعجازالحق قدوسی لکھتے ہیں کہ ’میر سہراب نہایت دُور اندیش اور بیدار مغز حکمران تھا جس نے سرحدوں سے آنے والے دشمنوں سے حفاظت کی خاطر خیرپور سے 15 میل کے فاصلے پر ریگستان کے کنارے ’احمد آباد بستی‘ میں پہاڑیوں پر ایک مضبوط قلعہ تعمیر کروایا۔ ساتھ ہی آبادی کے تحفظ کے لیے فصیل کی بھی تعمیر کروائی‘۔

سندھ میں میروں کے پاس کل 23 قلعے تھے
سندھ میں میروں کے پاس کل 23 قلعے تھے

قلعے کا ایک شاندار منظر
قلعے کا ایک شاندار منظر

قلعہ احمد آباد
قلعہ احمد آباد

جن پہاڑیوں پر قلعے کی تعمیر ہوئی وہ پہاڑیاں بنیادی طور پر ریت اور چونے کے پتھر کی ہیں جو خیرپور ریاست میں 20 میل جنوب سے داخل ہوتی ہیں اور آگے چل کر ڈیجی کے قلعہ کے برابر آکر مغرب کی طرف مڑتی ہیں۔ ان پہاڑیوں کو ’گھاڑ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ قلعہ ان ٹکریوں کی ایک چھوٹے سے سلسلے پر تعمیر کیا گیا ہے۔

اس محفوظ اور اپنی طرز کے شاندار قلعے کی تعمیر ویسے ہی ہوئی جیسے اکثر بادشاہوں کے خوابوں کی تعبیر ہوتی ہے۔ غریب اور غلام آخر کب کام آئیں گے۔ یہاں بھی بچاری غربت نے تپتے دنوں میں اس طویل اور پیچیدہ تعمیرات کو مکمل کیا۔ ان زمانوں کی تاریخیں اس قلعے کی تعمیر کے متعلق اپنی بھیگی آنکھوں سے حقائق بیان کرتی ہیں۔

انصاری صاحب لکھتے ہیں کہ ’جودھپور اور جیسلمیر کی سرحدیں چونکہ خیرپور ریاست سے ملتی ہیں تو جب وہاں سوکھا پڑتا اور کھانے کے لیے گھر میں کچھ نہ بچتا تو لوگ اس ریگستانی علاقے سے سندھ کی طرف آتے، ان آئے ہوئے لوگوں کو قلعوں کی تعمیر پر لگادیا جاتا، احمد آباد جیسا قلعہ بھی اسی طرح تیار ہوا، وہ لوگ جو سارا دن اس قلعے کی تعمیر پر مزدوری کرتے ان کو بدلے میں روز ایک ’پاٹی‘ جوار دیا جاتا تھا۔' (ایک پاٹی میں ایک کلو کے برابر جوار آجاتی تھی، جس کو گھر لے جاکر پیس کر آٹا بنایا جاتا تھا، اس آٹے سے اندازاً 6 روٹیاں بنتی ہوں گی اور ضروری نہیں کہ گھر کا ایک فرد قلعے کی مزدوری پر جائے، زیادہ بھی جاسکتے تھے۔ ان دنوں میں جب کَچھ کی طرف سوکھا پڑا تھا تو لوگوں نے آٹے کے لیے اپنے بچے بیچے تھے ایسی صورت میں جب بادشاہت کا دور دورہ ہو اور عوام کی خس و خاشاک سے زیادہ اہمیت نہ ہو تو ایک یا دو پاٹی کے جوار یا باجرے کا ملنا ان بدنصیبوں کے لیے کم سے کم حیات رہنے کی ضمانت تو تھا)۔ میر سہراب کے ’امام گڑھ‘ اور ’شاہ گڑھ‘ قلعے بھی اس طرح ہی بنے تھے۔

ڈاکٹر عطا محمد حامی تحریر کرتے ہیں کہ ’یہ قلعہ کوٹ ڈیجی کی ایک پہاڑی پر، میر سہراب کے حکم سے وزیر تعمیرات سرائی محمد صالح خان خدمت گار نے 1797ء میں تعمیر کرایا۔ یہ ایک حربی قلعہ ہے جس کی دیواریں 20 فٹ لمبی اور 6 فٹ چوڑی ہیں۔ قلعے کی عمارت تقریباً گول دائرے میں پکی ہوئی اینٹوں اور پتھر کی چنائی پر کھڑی ہے۔ قلعے کے چاروں اطراف میں پہاڑیوں پر مورچے بنائے گئے ہیں اور اس قلعہ اور پہاڑیوں کے گرد مٹی کی 25 فٹ لمبی اور 12 فٹ چوڑی دیوار کھڑی کی گئی۔ اس قلعے کی خصوصیت یہ ہے کہ، دشمن کسی بھی طرف سے قلعہ کو فتح کرنے کے لیے گولہ باری کرے مگر توپ کے گولے قلعہ کے اندر نہیں گریں گے اور اندر کے مورچوں سے ہر طرف حملہ کیا سکتا تھا۔ یہ قلعہ ان انجینیئروں کے کمالِ فن کا ثبوت ہے جن کے پاس کوئی ڈگری نہیں تھی۔ اس قلعے کے مرکزی دروازے پر ایک زمانے میں، اس فارسی شعر کی 2 سطریں کھدی ہوئی تھیں مگر اب نظروں سے اوجھل ہیں کہ

قلعہ احمد آباد بر سنگ است
دل دشمنان ازو تنگ است

(احمد آباد کا قلعہ پتھروں پر ہے، دشمنوں کے دل اس سے پریشان ہیں۔)

اس قلعہ پر سپاہیوں کے 75 دستوں کے ساتھ ایک قلعدار رہتا تھا جس کو ’نواب‘ بلاتے تھے، قلعہ میں کافی بارود اور ایک 100 کے قریب توپیں موجود رہتیں۔

قلعے کا مرکزی دروازہ
قلعے کا مرکزی دروازہ

مرکزی دروازے سے داخلے کے بعد قلعے کا منظر
مرکزی دروازے سے داخلے کے بعد قلعے کا منظر

قلعے کے دوسرے دروازے کی جانب جاتے ہوئے
قلعے کے دوسرے دروازے کی جانب جاتے ہوئے

قلعے کا دوسرا دروازہ
قلعے کا دوسرا دروازہ

اشتیاق انصاری کے مطابق ’یہ قلعہ تقریباً ترشول کی شکل جیسا نظر آتا ہے۔ یہ جن پہاڑیوں پر بنایا گیا ہے ان کا سلسلہ جنوب مشرق سے ہوتا ہوا شمال مغرب طرف جاتا ہے اور روہڑی تک چلا جاتا ہے۔ یہاں اطراف سے جو پتھر حاصل ہوتا ہے وہ اتنا مضبوط نہیں ہے جس کو تعمیرات میں استعمال کیا جاسکتا ہو۔ یہی سبب ہے کہ قلعے میں اینٹوں کا استعمال ہوا ہے۔

اینٹوں کے استعمال کے سوا اور 3 باتوں کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ ایک یہ کہ کوٹ کو 3 دفاعی لائنیں دی گئی ہیں، دوسرا یہ کہ قلعہ جیسے جیسے اوپر جاتا ہے اس کی دیواریں اندر کی طرف جھکتی چلی جاتی ہیں جس سے نیچے کی نسبت اوپر کی وسعت کم ہوتی جاتی ہے اور تیسرا یہ کہ قلعہ جس پہاڑی پر بنایا گیا ہے اس پہاڑی کا عمود اوپر جاتے ہوئے تنگ ہوتا جاتا ہے جس کی وجہ سے حملہ کرنے والے کا اس پر چڑھنا انتہائی مشکل ہے۔ قلعے میں داخل ہونے کے لیے فقط ایک ہی راستہ ہے اور وہ مرکزی دروازے سے ہے مگر مرکزی قلعہ اس دروازے کے بعد 3 دروازوں کے بعد شروع ہوتا ہے جو قلعے کے انتہائی اونچائی والے حصہ پر ہے۔ وہاں تک پہنچنا اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے‘۔

باہر سے دیکھنے پر اس قلعے کی جو چیز سب سے زیادہ آپ کی توجہ کا مرکز بنتی ہے وہ ایک بُرج جیسی تعمیر ہے۔ اس کو مقامی زبان میں ’ٹھل‘ کہتے ہیں۔ ہم اس کو ’ٹاور‘ کہہ کر بھی پکار سکتے ہیں، اگر آپ نے حیدرآباد کے پکے قلعے کے پرانے اسکیچز دیکھے ہیں تو یہ بالکل اس ٹاور جیسا بنا ہوا ہے جس پر میروں کی حکومت کا جھنڈا لہراتا تھا۔ یہاں بھی یہ ’فتح ٹھل‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور سارے قلعے کی جان محسوس ہوتا ہے۔ اشتیاق صاحب لکھتے ہیں کہ ’قلعہ فتح کرنے کے بعد فاتح فوج اپنا جھنڈا اس ٹاور پر لگا کر اپنی فتح کا اعلان کرتی تھی‘۔

قلعے میں موجود برج جیسی تعمیر جسے ٹھل کہتے ہیں
قلعے میں موجود برج جیسی تعمیر جسے ٹھل کہتے ہیں

قلعے میں موجو ٹھل
قلعے میں موجو ٹھل

ٹھل قلعے کی ایک منفرد عمارت ہے
ٹھل قلعے کی ایک منفرد عمارت ہے

قلعے کے 4 بڑے برج ہیں (جبکہ چھوٹے 50 کے قریب ہیں) جو کچھ حقیقتوں کی وجہ سے مشہور ہیں۔ اس میں پہلا ’صفن صفا برج‘ ہے۔ یہ قلعے کے مغرب کے طرف آخری کونے ہر ہے۔ اس برج پر گزرے زمانے میں صفن صفا نام کی توپ رکھی ہوئی تھی تو اس وجہ سے اس کا یہ نام پڑا۔ اس کے ساتھ دوسری توپ بھی ’ملک میدان‘ کے نام سے رکھی گئی تھی تو اس کو ان دونوں ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ دوسرے برج کا نام ’شہید بادشاہ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، یہ شمال مغرب میں نیشنل ہائی وے کی طرف ہے، اس برج کے پیروں میں ایک ’پیر شہید بادشاہ‘ کا مزار ہے تو یہ اسی نام سے مشہور ہے۔ تیسرا ’جیسلمیر برج‘ ہے جو مشرقی کونے پر ہے، چونکہ اس طرف جیسلمیر ہے تو یہ نام اسی وجہ سے مشہور ہوگیا۔ چوتھا برج بھی ایک توپ ’مریم‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے جو قلعہ کے شمال میں ہے۔

یہ نامور توپیں جن کے نام سے یہ برج مشہور ہیں وہ اب یہاں نہیں ہیں البتہ ایک توپ خیرپور میرس کے ایک چوک پر رکھی ہے اور دوسری توپیں خیرپور کے ’فیض محل‘ کی شان بڑھاتی ہیں۔ وقت نے ان کے شکم اور منہ سے بارود کب کا چھین لیا ہے کہ وقت نے ترقی کی ہے اور انسان کو مارنے کے لیے ان سے زیادہ موت اگلنے والے ہتھیار بنا لیے ہیں۔

قلعے میں بنی ’غلام گردشیں‘ قلعہ کے اوپر والے حصہ میں، جنوب مشرق اور شمال مغرب میں دیواروں کے ساتھ اندرونی طرف دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہ ’صفن صفا‘ برج سے شروع ہوکر شمال مشرق کے کونے تک یعنی ’جیسلمیر‘ برج پر ختم ہوتی ہیں۔

قلعے کا نقشہ
قلعے کا نقشہ

خیر پور میرس کے چوک پر رکھی توپ
خیر پور میرس کے چوک پر رکھی توپ

وقت نے اس توپ کے شکم سے بارود کب کا چھین لیا
وقت نے اس توپ کے شکم سے بارود کب کا چھین لیا

میں نے جب اشتیاق انصاری صاحب سے ان غلام گردشوں سے متعلق پوچھا تو جواب آیا کہ ’میں نے بہت سارے قلعے دیکھے ہیں وہاں فوج کو رکھنے کے لیے کوٹ کے بیچ میں کھلے حصے میں خیمے وغیرہ لگا کر ان کی رہائش کا انتظام کیا جاتا تھا مگر یہاں فوج کے رہنے کے لیے الگ بندوبست کیا ہوا نظر آتا ہے۔ ہر قلعہ میں دیواروں کے اندرونی طرف سے، قلعہ کی چوکی اور نگہداشت کے لیے غلام گردشیں بنی ہوئی ہوتی ہیں اور ان پر چل کر سپاہی قلعہ سے باہر نظرداری رکھ سکتے تھے۔ مگر یہاں قلعہ کے اندرونی دیواروں کے ساتھ جو غلام گردشیں ہیں وہ دوسرے قلعوں سے الگ اس لیے ہیں کہ ان کی جگہ پر فوجیوں کے لیے بیرکیں بنائی گئی ہیں اور ان کی چھت ان غلام گردشوں کے لیے کام آتی ہے، اس لیے ایک وقت میں وہ فوجیوں کی رہائش بھی ہے اور غلام گردش بھی۔ یہ فقط میں نے یہاں دیکھا ہے‘۔

بھول بھلیوں جیسے اس قلعے میں تیسرے دروازے کے سامنے مغرب کی طرف دیواروں میں چھوٹے چھوٹے خانے بنے ہوئے ہیں۔ پہلی بار جب میری ان پر نظر گئی تو مجھے لگا کہ رات کے وقت روشنی کے لیے یہاں دیے جلتے ہوں گے اور ایک وقت میں اگر ان سارے طاقوں میں دیے جلتے ہوں گے تو روشنی یہاں سے کسی پھوار کی طرح نکلتی محسوس ہوتی ہوگی، کتنا شاندار ہوگا وہ منظر۔

میں ابھی اس منظر کو تصور کر ہی رہا تھا کہ اشتیاق انصاری صاحب نے ایک پھونک سے میرے تصور میں جلتے ہوئے دیپک کو بجھا دیا۔ میں نے جب پوچھا کہ یقیناً یہاں بے تحاشا دیپک جلتے ہوں گے، تو جواب آیا کہ ’یہاں بالکل بھی دیپک نہیں جلتے تھے اور نہ کوئی روشنی کی پھوار تھی، بلکہ یہ بارود رکھنے کا کمرہ تھا اور ان طاقوں میں توپوں کے گولے رکھے جاتے تھے، کیونکہ میروں نے پرتگالیوں سے 90 کے قریب توپیں خریدی تھیں جو بہت عرصہ یہاں پڑی رہی تھیں بعد میں یہ توپیں لاہور کے میوزم میں رکھنے کے لیے لے جائی گئیں، البتہ کچھ توپیں اب بھی ہیں جو خیرپور کے چوکوں اور دوسرے بنگلوں کی زینت بڑھانے کے لیے رکھی گئی ہیں‘۔

مجھے نہیں معلوم کہ بارود اگلنے والی ٹھنڈے دھاتوں کے وجود سے بنگلوں کی زینت کیسے بڑھتی ہوگی کہ بندوق، توپ یا ٹینک نے جب بھی بارود اگلا ہوگا تب حیات کے گلستان کو ویران ہی کیا ہوگا۔ بھلا قبرستان آباد کرنے والے زندگی کے گلستان کو زینت کیسے بخش سکتے ہیں؟

قلعے میں بنی غلام گردشیں اور رہائشی کمرے
قلعے میں بنی غلام گردشیں اور رہائشی کمرے

بیرکوں کی چھت غلام گردشوں کے لیے کام آتی ہے
بیرکوں کی چھت غلام گردشوں کے لیے کام آتی ہے

سپاہیوں کی بیرکیں اور غلام گردشیں
سپاہیوں کی بیرکیں اور غلام گردشیں

بارود رکھنے کا کمرہ
بارود رکھنے کا کمرہ

یہ جتنا وسیع قلعہ ہے اتنی ہی پُراسراریت اور حیرت انگیزیاں دیکھنے والے کے دل و دماغ پر کسی سحر بھری ٹھنڈی دھند کی صورت میں چھائی رہتی ہیں۔ اگر آپ اکیلے ہوں تو لوبان کے دھوئیں کی پرانی خوشبو جو چونے اور مٹی کے لیپ میں سمائی ہوتی ہے، کو محسوس کرسکتے ہیں۔ میں تیز دھوپ میں اس وسیع ہال میں پہنچا جس کو میر صاحبان کی رہائش کی طور پر جانا جاتا ہے۔ باہر دھوپ تھی اور یہاں ٹھنڈک تھی، میں نے اندازہ لگایا کہ، خیرپور کا یہ علاقہ گرم دنوں میں بہت گرم رہتا ہے۔ گرمی کبھی کبھار تو 51 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلی جاتی ہے۔ مگر مجھے نہیں لگتا کہ اس وسیع ہال میں گرمی کا کوئی خاص اثر ہوتا ہوگا۔ ایک تو اس میں ہوادار ہونے کا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ آگے برآمدہ ہے جس کی چھت لکڑیوں کی ہے جبکہ اندر وسیع ہال کی چھت اور دیواروں کی چنائی اینٹوں سے کی گئی ہے اور وہ اتنی موٹی دیواریں ہیں کہ حدت اندر تک نہیں پہنچتی۔ جب تک سورج باہر سے اینٹوں کو اگر ایک فٹ یا دو فٹ گہرائی تک گرم کرچکا ہوگا تو اتنے میں شام ہوجاتی ہوگی اور یہ 40 فٹ لمبا اور 20 فٹ چوڑا وسیع کمرہ ٹھنڈا ہی رہتا ہوگا۔

آپ اگر دیواروں کو غور سے دیکھیں تو آپ کو وہاں پھول پتیاں بنی نظر آتی ہیں، جن سے رنگوں کی تازگی وقت نے چھین لی ہے، مگر تھوڑا سوچیں تو جب یہ بالکل نیا تیار ہوا ہوگا تو اس رہائش کی کیا شان ہوتی ہوگی۔ اگر آپ ان دنوں کا تصور کریں جب اس ریاست کے مالک یہاں رہتے ہوں گے تو پردے، غالیچے، گاؤ تکیے مطلب کہ کیا کیا یہاں نہیں ہوتا ہوگا۔ زندگی کے ناجانے کتنے رنگ یہاں ابلتے ہوں گے۔

قلعے میں موجود میر صاحبان کی رہاش گاہ
قلعے میں موجود میر صاحبان کی رہاش گاہ

رہائش گاہ کا ایک اور منظر
رہائش گاہ کا ایک اور منظر

رہائش گاہ کا اندرونی منظر
رہائش گاہ کا اندرونی منظر

رہائش گاہ کا اندرونی منظر
رہائش گاہ کا اندرونی منظر

رہائش گاہ کی دیواروں پر پھول پتیاں بھی بنائی گئی ہیں
رہائش گاہ کی دیواروں پر پھول پتیاں بھی بنائی گئی ہیں

محترم اعجاز الحق قدوسی کے مطابق ’میر سہراب نے اپنی وفات (1830ء) سے پہلے حکومت کا کاروبار اپنے بیٹوں کے حوالے کرکے کچھ عرصہ یہاں آکر گوشہ نشینی کی زندگی گزاری تھی۔ میر علی مراد خان (میر سہراب کا بیٹا) بھی اس قلعہ میں رہے‘۔ اس رہائش کے قریب باورچی خانہ بھی ہے جو کچی اینٹوں سے بنا ہوا ہے ساتھ میں اور بھی کچی اینٹوں کے کمرے ہیں جو شاید نوکرانیوں کے لیے بنائے گئے ہوں۔

جیسلمیر برج سے پہلے وہ محرابوں والی مختصر سی تعمیر ہے جو جب بنی ہوگی تو یقیناً شاندار دکھائی دیتی ہوگی اور بُرج کے قریب ہونا اس کی خوبصورتی کو اور بڑھا دیتا ہے۔ یہاں کبھی کبھار ضرور دربار لگتا ہوگا۔ عید کے موقعے پر کوئی تقریب منعقد ہوتی ہوگی اور خاص فیصلوں کے لیے بھی یقیناً اس کا استعمال ہوتا ہوگا۔ یہ اپنے زمانے کا خوبصورت تخت ہوگا۔ مگر یہاں کی تیز دھوپ اور گرم ہوا کے تھپیڑوں کی وجہ سے تخت کے سفید پتھر پر تراشے گئے بیل بوٹوں کا میلان ٹوٹنے لگا ہے۔ اب اس کو پھر سے اپنی اصلی شکل میں بحال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

میں نے وہ جیل کوٹھی بھی دیکھی، جس کو اگر جیل کی کوٹھی نہ کہا جاتا پھر بھی اس کی تعمیر شاندار ہے۔ اسے بالکل کسی محراب کے طرز پر اینٹوں سے چن کر بنایا گیا ہے اور چھت میں ایک ڈیڑھ فٹ کی کھڑکی ہے جس سے متعلق کہتے ہیں کہ قیدیوں کو اس سے خوراک اور پانی دیا جاتا تھا۔ اشتیاق انصاری صاحب اس بات سے بالکل بھی متفق نہیں ہیں کہ اس کی تعمیر جیل کا سوچ کر کی گئی ہوگی۔ ان کا خیال ہے کہ یہ پہلے اناج کا گودام رہا ہوگا بعد میں اس کو ضرورت کے تحت جیل کی کوٹھری میں تبدیل کردیا گیا ہوگا۔ کتنا عجیب لگتا ہے کہ گندم رکھنے کی جگہ لوگوں کو رکھا جائے، بس وقت وقت کی بات ہے۔

قلعے میں بنا باورچی خانہ
قلعے میں بنا باورچی خانہ

یہ باورچی خانہ کچی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے
یہ باورچی خانہ کچی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے

قلعے میں موجود تخت
قلعے میں موجود تخت

یقیناً اپنی تعمیر کے بعد یہ نہایت شاندار تخت ہوگا
یقیناً اپنی تعمیر کے بعد یہ نہایت شاندار تخت ہوگا

تخت کو پھر سے اپنی اصلی شکل میں بحال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے
تخت کو پھر سے اپنی اصلی شکل میں بحال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے

قلعے میں موجود جیل
قلعے میں موجود جیل

کہانی جو 1782ء سے ’ہالانی‘ کی جنگ سے شروع ہوئی تھی اس کو اب ہم 1843ء تک لے آئے ہیں۔ جب خیرپور کے حاکم میر علی مراد خان نے 65 سال کے بڈھے اور تھوڑا لنگڑا کر چلنے والے اس انگریز جنرل کی ’میانی کی جنگ‘ میں مدد کی۔ چارلس نیپئر جس کو 1841ء برس کے آخری شدید ٹھنڈے ماہ میں ’زینوبیا‘ شپ میں، بمبئی بندرگاہ سے سندھ فتح کرنے کے لیے سخت احکامات کے ساتھ بھیجا گیا تھا وہ اس سفر میں مرتے مرتے بچا کہ سمندر پر چلنے والے جہاز میں ’کالرا‘ کی وبا پھیلی اور مرنے والوں کی تعداد 64 تک پہنچ گئی تھی اور جہاز چلانے والے عملے سے کوئی ایک دو آدمی بچے تھے اور ایک چارلس نیپئر تھا جو بچ کر کراچی پہنچا۔

اسی ماہ یعنی دسمبر کی 13 تاریخ کو کراچی میں جب وہ فوج کی ٹریننگ دیکھ رہا تھا تو ایک گولہ پھٹا جس کی دھات کا ایک حصہ اس کی ٹانگ میں گھس گیا۔ مگر اس نے زندگی میں بہت ساری جنگیں دیکھیں اور زخم کھائے تھے اس لیے خوف کے پرندے نے کبھی اس کے ذہن کی کشتی کے مستول پر بیٹھنے کی ہمت نہیں کی اور پھر جب عمر 65 برس ہوجائے تو یہ گزرے برس اکثر زندگی سے وہ سارے کے سارے رنگ خرچ دیتے ہیں جن میں حیات کے لیے کشش بھری ہوتی ہے۔ چارلس نیپئر کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی تھا کہ وہ ہنستا کم اور بربادی پر دھیان زیادہ دیتا۔

میر سہراب کے بیٹوں کی آپسی رنجش اور تخت کی چاہت نے چارلس نیپئر کے لیے بہت سی آسانیاں پیدا کردی تھیں۔ بمن داس باسو لکھتے ہیں کہ ’میانی کی جنگ سے پہلے سر چارلس نیپئر نے تھر کے قلعہ امام گڑھ اور راجھستان کی سرحد پر بنے شاہ گڑھ پر قبضہ کرکے ان قلعوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اس عمل سے انگریز یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ تالپوروں کو پتا چل جائے کہ گوری سرکار جہاں چاہے قبضہ کرسکتی ہے اور جہاں چاہے بربادی پھیلا سکتی ہے۔ یہ ایک نفسیاتی حربہ تھا جو حالات کے حوال سے اثر انداز ہوا۔

نئے قلعے سے کوٹ ڈیجی کے قدیم قلعے کے آثار دیکھتے ہوئے
نئے قلعے سے کوٹ ڈیجی کے قدیم قلعے کے آثار دیکھتے ہوئے

قلعے سے بستی کی جانب دیکھتے ہوئے
قلعے سے بستی کی جانب دیکھتے ہوئے

ذاتی جھگڑے نے یہ صورتحال اختیار کرلی کہ خون کے رشتے آپس میں بِھڑ گئے اور غصے اور نفرت کی آخری سرحد تک آپہنچے۔ اشتیاق انصاری لکھتے ہیں کہ ’سندھ کی فتح کے وقت خیرپور کے والی میر علی مراد خان نے اپنے 500 گھڑ سوار سپاہیوں کا دستہ بھی چارلس نیپئر کو دیا تھا اور اس دستے نے انگریزوں کے ساتھ میانی جنگ میں اپنوں سے لڑ کر ان کا خون بہایا۔ یہ جنگی دستے کیپٹن رسل اور کیپٹن جیکب کی کمان میں جنگ میں شامل ہوئے تھے۔ اس جنگ اور خیرپور کے انگریزوں کی طفیلی ریاست بننے کے بعد میر علی مراد خان نے اس کوٹ کو قید خانے میں تبدیل کردیا تھا‘۔

ایک حوالے سے گزرے دنوں کے شب و روز یعنی 1843ء کی جنگ کے بعد ہم یہاں آنے والے دنوں کا ذکر اس لیے نہیں کریں گے کہ ان آنے والے دنوں میں یہاں ایک دوسرے دور کی ابتدا ہونے والی تھی، جن میں کئی اور قصے اور کہانیوں نے جنم لیا۔ پچھتاوؤں کے کئی گھنے جنگل تھے جو اُگ پڑے تھے۔ مگر وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ اس لیے ان تلخ و شیریں، اپنے اور پرائیوں کے دیے ہوئے زخموں کا کسی اور نشست میں تفصیل سے ذکر کریں گے اور ضرور کریں گے کہ یہ گزرے واقعات ہمارے لیے ایک ذہین ترین معلم کی حیثیت رکھتے ہیں۔


حوالہ جات:

۔ ’سندھ جا کوٹ ائیں قلعا‘۔ اشتیاق انصاری۔ 2015ء۔ سندھیکا اکیڈمی کراچی۔

۔ ’تاریخ تمدن سندھ‘۔ رحیمداد مولائی شیدائی۔ 1995ء۔ انسٹیٹیوٹ آف سندھ الاجی، حیدرآباد

۔ ’خیرپور میرن جو ادب، سیاست ائیں ثقافت میں حصو‘۔ 2009ء۔ ثقافت ائیں سیاحت کھاتو سندھ

۔ ’تاریخ سندھ‘۔ اعجازالحق قدوسی۔ 2014ء۔ سندھیکا اکیڈمی، کراچی

۔ ’تاریخ خیرپور‘۔ نسیم امروھوی۔ 2021ء۔ ورثہ پبلی کیشنز، کراچی

۔ ‘Rise of the Christian Power in India’ Vol,V. Mejor Baman Das Bsu. Culcutta.


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔