پی ٹی آئی حکومت 'متنازع اسرائیلی دورے' کے بارے میں جانتی تھی، منتظمین

اپ ڈیٹ 01 جون 2022
انیلہ علی نے کہا کہ این جی او کا مقصد امریکا میں مختلف کمیونٹیز کے لوگوں کے ساتھ بین المذاہب رابطے قائم کرنا ہے—فوٹو: انیلہ علی ٹویٹر
انیلہ علی نے کہا کہ این جی او کا مقصد امریکا میں مختلف کمیونٹیز کے لوگوں کے ساتھ بین المذاہب رابطے قائم کرنا ہے—فوٹو: انیلہ علی ٹویٹر

حالیہ دنوں بیرون ملک رہنے والے چند غیر ملکی شہریت کے حامل اور کچھ پاکستانی شہریوں کے ایک وفد کا حصہ بن کر اسرائیل کا دورہ کرنے کے انکشاف نے ملکی سیاست میں تنازع پیدا کردیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی وفد کے مبینہ اسرائیلی دورے کو سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی پارٹی نے اپنی حکومت کے خلاف غیر ملکی سازش کے بیانیے میں شامل کیا ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ اسرائیلی دورے کے لیے ان سے اقتدار لینے والوں کو خاموشی سے منظوری حاصل تھی۔

اس معاملے پر پارلیمنٹ، پریس کانفرنسوں اور عوامی جلسوں میں بھی بڑے پیمانے پر بات کی جا رہی ہے اور اسے حکومت کی جانب سے ایک سیاسی قدم کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

مزید پڑھیں: اسرائیل کا دورہ کرنے والے پی ٹی وی اینکر کو برطرف کردیا گیا ہے، مریم اورنگزیب

اس حقیقت نے کہ دیگر مسلم اکثریتی ممالک جیسے کہ متحدہ عرب امارات اور ترکی بھی اب اسرائیل سے تعلق بہتر بنا رہے ہیں، دورے کے حوالے سے دلچسپی کو فروغ دیا۔

تاہم اسرائیلی دورہ کرنے والے وفد کے دو اراکین نے دورے کے حوالے سے موجودہ حکومت اور ان کے ناقدین کے بیانات پر جواب دیا ہے۔

غیر سرکاری تنظیم (این جی او) امریکن مسلم ملٹی فیتھ ویمنز امپاورمنٹ کونسل (اے ایم ایم ڈبلیو ای سی) کی سربراہ اور اسرائیلی دورے کی منتظم انیلہ علی نے ڈان کے نمائندے انور اقبال سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ایک رکن جو پاکستانی شہری ہیں، ان کی طرف سے اسرائیل کا دورہ کرنے کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت سے خاص اجازت لی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ انہیں یہ بھی یقین دلایا گیا تھا کہ اسرائیل کا دورہ کرنے پر ان کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔

جیو ڈاٹ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انیلہ علی نے دعویٰ کیا کہ ان کی این جی او کا مقصد امریکا میں مختلف کمیونٹیز کے لوگوں کے ساتھ بین المذاہب رابطے قائم کرنا ہے، لہذا یہ مسلمانوں اور یہودیوں کے ساتھ ایک فطری اتحاد تھا کہ ہم شراکت دار بنے اور نہ صرف اسرائیل بلکہ دبئی اور ابوظبی کا بھی دورہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ انہیں بہت دکھ ہے کہ پاکستان میں سیاست دان خاص طور پر ڈاکٹر شیریں مزاری ایک بین المذاہب خواتین کی تنظیم کو اپنی پارٹی کی اقتدار سے بے دخلی اور ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے حربے کے طور پر استعمال کریں۔

انیلہ علی نے مزید کہا کہ ہمارے اسرائیلی دورے کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ صرف مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان امن سے متعلق تھا۔

ڈان کی طرف سے پاکستان ٹیلی ویژن سے منسلک رہنے والے صحافی احمد قریشی سے بھی بات کی گئی جو اسرائیلی دورہ کرنے والے وفد میں شامل تھے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ تحریک انصاف کی سابقہ حکومت نے پاکستان اسرائیل تعلقات پر غیر متوقع بات چیت شروع کی تھی۔

' انہوں نے کہا کہ وفد کا دورہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنے کی لابنگ کرنے کے لیے نہیں تھا بلکہ اس کا ایجنڈا بین المذاہب ہم آہنگی، مسلم یہودی مفاہمت اور ابراہم معاہدہ تھا۔

ڈان کے ساتھ ایک تفصیلی انٹرویو میں احمد قریشی نے دعویٰ کیا کہ وہ 2008-2004 تک سرکاری نشریاتی ادارے کے ساتھ وابستہ رہے لیکن وہ پی ٹی وی کے مستقل ملازم نہیں رہے۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ میں بحث، اسرائیل کا دورہ کرنے والوں کی شہریت ختم کرنے کا مطالبہ

انہوں نے کہا کہ مجھے یہ سن کر حیرانی ہوئی کہ حکومت نے مجھے پی ٹی وی سے فارغ کرنے کا اعلان کیا ہے، میں صرف فری لانس صحافی ہوں اور پی ٹی وی پر پروگرام کی ہر قسط کے پیسے لیتا تھا۔

احمد قریشی نے کہا کہ حکومت کے اس اعلان کا مطلب یہ ہے کہ وہ تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے ایک سرکاری ملازم کو اسرائیل بھیجنے کے بارے میں 'جھوٹے دعووں' کی توثیق کر رہی ہے۔

احمد قریشی کا یہ خیال ہے کہ حکومت نے پی ٹی وی کے ذریعے جو بیان جاری کیا وہ سیاسی بیان تھا، ممکنہ طور پر تحریک انصاف کی قیادت کو رعایت دینے کی کوشش کی گئی تھی۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اسرائیل کا دورہ کرنے کے مقصد کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ اس معاملے کو پاکستانی سیاست میں گھسیٹا جا رہا ہے اور شیریں مزاری نے اس معاملے پر سیاست کی ہے جنہوں نے یہ دعویٰ کرنے کے لیے دورے کی تصاویر استعمال کیں کہ شہباز شریف کی حکومت اسرائیل کے ساتھ خفیہ سفارت کاری کر رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کو ہٹانے کی مبینہ سازش کا بیانیہ مضبوط کرنے کے لیے ہمارے دورے کو سیاسی مقصد کے لیے استعمال کیا۔

احمد قریشی کا کہنا تھا کہ وفد کا کام مشرق وسطیٰ سے متعلق تھا جس کا پاکستانی حکومت یا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس وفد کا مقصد پاکستان اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کے لیے لابنگ کی کوشش نہیں بلکہ بین المذاہب ہم آہنگی، مسلم یہودی مفاہمت اور ابراہم معاہدے کی دوسری سالگرہ تھی۔

بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ وہ اس وفد کا حصہ کیسے بنے انہوں نے کہا کہ وہ تقریباً دو دہائیوں سے پاکستان اور مشرق وسطیٰ میں صحافت کر رہے ہیں اور انہوں نے انیلہ علی کی شرکا، متحدہ عرب امارات کی مشہور این جی او جو ابراہم معاہدے کی حمایت کرتی ہے، کے ساتھ شراکت داری میں ایک مطالعاتی دورے میں شامل ہونے کی دعوت قبول کی تھی۔

ابراہم معاہدہ اسرائیل، متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش کے درمیان سفارتی تعلقات کو بہتر کرنے والے معاہدوں کا ایک سلسلہ ہے جس کے لیے امریکی انتظامیہ نے اگست اور دسمبر 2020 کے درمیان سہولت فراہم کی تھی۔

احمد قریشی نے مزید کہا کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تعلقات کے علاوہ پاکستان اور اسرائیل کے پاس اس اہم خطے میں شرکت داری کے لیے دوسرے معاملات بھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں واحد دونوں ممالک ہیں جن کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور دونوں ممالک کے مشترکہ دوستوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے جن میں چین سے لے کر امریکا تک اور اس کے درمیان بہت سی دیگر ریاستیں بھی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: ’یہ بہترین تبدیلی ہے‘، اسرائیلی صدر کی پاکستانی وفد سے ملاقات کی تصدیق

احمد قریشی نے کہا کہ کسی براہ راست دو طرفہ تنازع کے بغیر ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی اور اسرائیلی اس خطے کی بہت سی ریاستوں کی دارالحکومتوں میں ایک دوسرے سے ملتے رہے ہوں گے اور دونوں ممالک کے مضبوط تعلقات ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے چاہئیں، تو انہوں نے کہا کہ یہ ایک خود مختار فیصلہ ہے، جسے پاکستان کو قومی مفادات کے مطابق کرنے کا حق حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ المیہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت نے پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات پر ایک غیر متوقع بحث شروع کی جب کہ یہ کسی کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھا۔

احمد قریشی کے مطابق بہت سے پاکستانیوں کا خیال ہے کہ اسلام آباد کو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے ساتھ بہترین تعلقات قائم رکھنے چاہئیں کیوں کہ صرف فلسطینی اور اسرائیلی ہی ہیں جو اپنے تنازعات کو حل کرسکتے ہیں لیکن پاکستان 1995 میں فلسطینیوں کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور دیگر دوطرفہ فلسطینی اسرائیل انتظامات میں پرامن تعلقات قائم کرنے کے لیے اپنا حصہ ڈال سکتا ہے۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا پاکستانی حکومت کو ان کے سفری منصوبوں کے بارے میں علم تھا، انہوں نے پوچھا کہ کیا بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ کام کرنے والا ہر پاکستانی صحافی حکومت سے کلیرئنس حاصل کرنے کا پابند ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی جارحیت کے خلاف حمایت پر فلسطینی سفیر کا پاکستان سے اظہارِ تشکر

انہوں نے کہا کہ قبل از معلومات ممکن ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ بین الاقوامی میڈیا کے لیے بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانی صحافی اجازت لیتے ہیں اور نہ ہی ریاست کی طرف سے ایسا مطالبہ ہوتا ہے۔

جب احمد قریشی سے پوچھا گیا کہ اسرائیل کے دورے وقت ان کی بات چیت کے دوران فلسطین کا مسئلہ آیا تو انہوں نے کہا کہ اسرائیلیوں کے ساتھ کوئی بھی ملاقات اس معاملے کے ذکر کے بغیر نہیں ہوسکتی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں