حنیف عباسی نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا

اپ ڈیٹ 02 جون 2022
حنیف عباسی کو 27 اپریل کو وزیر اعظم شہباز شریف کے معاون خصوصی تعینات کرنے کا نوٹی فیکشن جاری کیا گیا تھا — فائل فوٹو: اے پی پی
حنیف عباسی کو 27 اپریل کو وزیر اعظم شہباز شریف کے معاون خصوصی تعینات کرنے کا نوٹی فیکشن جاری کیا گیا تھا — فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے عہدے پر خدمات انجام دینے سے 'جزوی طور پر' روکنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

کابینہ ڈویژن کے جاری کردہ نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے وزیر اعظم نے رولز آف بزنس 1973 کے شیڈول فائیو اے کے تحت استعفیٰ منظور کر تے ہوئے حنیف عباسی کو فوری طور پر عہدے سے ہٹا دیا ہے۔

یکم جون کو وزیر اعظم کو ارسال کردہ استعفے میں حنیف عباسی نے کہا کہ وہ بطور معاون خصوصی اپنی خدمات انجام نہیں دے پارہے اور یہ موقع دینے پر ان کا شکریہ ادا کر کے استعفیٰ قبول کرنے کی درخواست کی۔

مزید پڑھیں: حنیف عباسی کو بطور معاون خصوصی وزیراعظم کام کرنے سے روک دیا گیا

خیال رہے کہ حنیف عباسی کو 27 اپریل کو وزیر اعظم شہباز شریف کے معاون خصوصی تعینات کرنے کا نوٹی فیکشن جاری کیا گیا تھا، لیکن انہیں کوئی قلمدان نہیں دیا گیا تھا۔

ان کی تعیناتی پر سابق وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا تھا کہ ان کا تقرر غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔

بعد ازاں 6 مئی کو عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل) کے سربراہ شیخ رشید احمد نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کی بطور وزیر اعظم کے معاون خصوصی تعیناتی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی تھی جب نئے تعینات ہونے والے وزیراعظم کے معاون خصوصی حنیف عباسی نے شیخ رشید کی وِگ ان کے سر سے اتار کر لانے والے کو 50 ہزار روپے انعام دینے کا اعلان کیا تھا، جبکہ لیگی رہنما کے اس بیان پر پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ نے مؤقف اپنایا تھا کہ 21 جولائی 2012 کو حنیف عباسی کے خلاف راولپنڈی میں منشیات کنٹرول ایکٹ 1997 کے سیکشن 9 سی، 14 اور 15 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: شیخ رشید نے حنیف عباسی کی بطور معاون خصوصی تعیناتی چیلنج کردی

حنیف عباسی کے خلاف درج کی گئی مذکورہ ایف آئی آر کے مبینہ حقائق کے مطابق حنیف عباسی نے دیگر لوگوں کے ہمراہ اپنی فرم یعنی گرے فارماسیوٹیکل کے لیے 500 کلوگرام ایفی ڈرین حاصل کی اور اس کے بعد انہوں نے طبی مقاصد کے لیے ایفی ڈرین استعمال کرنے کے بجائے اسے منشیات کے اسمگلروں کو فروخت کرکے غیر قانونی طور پر فائدہ اٹھایا۔

درخواست گزار نے یہ بھی کہا تھا کہ حنیف عباسی کو ٹرائل کورٹ نے 2018 میں عمر قید کی سزا سنائی تھی جبکہ حنیف عباسی نے بعد میں اس سزا کو لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) میں چیلنج کیا اور سزا کی معطلی اور ضمانت کے لیے الگ درخواست بھی دائر کی۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ 11 اپریل 2019 کو لاہور ہائی کورٹ نے حنیف عباسی کی سزا صرف معطل کی تھی، ختم نہیں کی۔

شیخ رشید نے درخواست میں دلیل دیتے ہوئے کہا تھا کہ معاون خصوصی کا عہدہ ایک باوقار منصب ہے جبکہ ایک سزا یافتہ شخص کا، خاص طور پر وہ شخص جو منشیات جیسے غیر اخلاقی کاروبار کے لیے سزا یافتہ ہو اس کا ایسے عہدے پر فائز ہونا کسی طور پر بھی موزوں اور مناسب نہیں۔

مزید پڑھیں: فرحت اللہ بابر نے حنیف عباسی کے بیان کو ’پرتشدد‘ قرار دے دیا

جس پر 9 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کو حکم دیا تھا کہ حنیف عباسی کے بطور معاون خصوصی تقرر پر نظر ثانی کی جائے۔

17 مئی کو کیس کی اگلی سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے حنیف عباسی کو بطور وزیر اعظم معاون خصوصی عارضی طور پر کام کرنے سے روکتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ معاون خصوصی کا کام مشورہ دینا ہے جو اعلامیے کے بغیر بھی دیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امید ہے آئندہ سماعت تک حنیف عباسی عوامی عہدہ استعمال نہیں کریں گے، معاون خصوصی کا کام وزیراعظم کو مشورہ دینا ہوتا ہے جو بغیر نوٹی فکیشن بھی دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ اگر کوئی سزا یافتہ ہو تو وہ پبلک آفس ہولڈ نہیں کر سکتا جس پر احسن بھون نے کہا کہ میں عدالت کی معاونت کروں گا کہ معاون خصوصی کا عہدہ دیگر سرکاری عہدوں جیسا نہیں ہوتا۔

تاہم حنیف عباسی کی جانب سے آج عہدے سے استعفیٰ دے دیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں