بھارت: بی جی پی یوتھ ونگ کے رہنما مسلم مخالف تبصروں پر گرفتار

اپ ڈیٹ 08 جون 2022
توہین آمیز تبصروں کی وجہ سے بھارت میں سفارتی سطح پر شدید تناؤ جاری ہے— فوٹو: ہرشیت سریواستو/ٹوئٹر
توہین آمیز تبصروں کی وجہ سے بھارت میں سفارتی سطح پر شدید تناؤ جاری ہے— فوٹو: ہرشیت سریواستو/ٹوئٹر

شمالی بھارت میں پولیس نے ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک نوجوان رہنما کو سوشل میڈیا پر مسلم مخالف تبصرے پوسٹ کرنے پر گرفتار کر لیا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب پارٹی کے ایک اور عہدیدار کی جانب سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں توہین آمیز تبصرے کی وجہ سے سفارتی سطح پر شدید تناؤ جاری ہے۔

گزشتہ ہفتے مسلمانوں کی جانب سے اسلام مخالف تبصروں کی مذمت کے لیے کیے گئے احتجاج کے دوران فرقہ ورانہ کشیدگی کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے نوجوان رہنما ہرشیت سریواستو کو کانپور شہر میں گرفتار کر لیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: گستاخانہ بیان پر انڈونیشیا، ملائیشیا کا بھارت سے احتجاج

ایک سینئر پولیس اہلکار پرشانت کمار نے کہا کہ 'ہم نے مقامی سیاست دان کو مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تبصرے کرنے پر گرفتار کیا'۔

انہوں نے مزید کہا کہ کانپور میں کشیدگی کے بعد کم از کم 50 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

ہرشیت سریواستو کے وکیل اس معاملے پر تبصرے کے لیے دستیاب نہیں تھے۔

ترجمان بی جے پی نوپور شرما کی جانب سے ایک ٹیلی ویژن شو میں بحث کے دوران حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تبصرے کے بعد ملک کے دیگر حصوں میں ناساز صورتحال کی اطلاع ملی۔

مزید پڑھیں: بی جے پی رہنماؤں کے پیغمبر اسلام ﷺ کے متعلق توہین آمیز ریمارکس، مسلم دنیا میں غم و غصے کی لہر

بی جے پی نے کہا کہ نوپور شرما کو پارٹی سے معطل کر دیا گیا ہے جبکہ ایک اور ترجمان نوین کمار جندال کو بھی سوشل میڈیا پر اسلام مخالف نازیبا تبصروں پر پارٹی سے نکال دیا گیا ہے۔

پاکستان، قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عمان، انڈونیشیا، ملائیشیا، ایران اور افغانستان جیسے مسلم ممالک کے رہنماؤں کی جانب سے بھارتی حکومت سے معافی کا مطالبہ کرنے اور اسلام مخالف ریمارکس پر احتجاج کرنے کے لیے بھارتی سفارت کاروں کو طلب کیے جانے کے بعد ملک میں غم و غصے میں مزید اضافہ ہوا۔

57 رکنی اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے ایک بیان میں کہا کہ یہ توہین بھارت میں اسلام کے خلاف نفرت کی بڑھتی ہوئی فضا اور مسلمانوں کو منظم طریقے سے ہراساں کیے جانے کے تناظر میں سامنے آئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گستاخانہ بیان پر بھارتی ناظم الامور دفتر خارجہ طلب، مسلح افواج کا بھی اظہار مذمت

بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا کہ گستاخانہ ٹوئٹس اور تبصرے کسی بھی طرح سے حکومت کے خیالات کی عکاسی نہیں کرتے۔

یہ تنازع بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ایک سفارتی چیلنج بن گیا ہے جنہوں نے حالیہ برسوں میں توانائی سے مالا مال مسلم ممالک کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کیے ہیں۔

ان کی ہندو قوم پرست پارٹی کے کئی ارکان کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ عوامی پلیٹ فارم پر مذہب کے بارے میں بات کرتے وقت انتہائی محتاط رہیں۔

مزید پڑھیں: شوبز شخصیات کی بھارتی سیاستدانوں کے گستاخانہ ریمارکس کی مذمت

بھارت میں اسلامسٹ رائٹس گروپ کے ارکان نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب بااثر غیر ملکی رہنماؤں نے اقلیتی برادری کی تذلیل کے خلاف بات کی ہے۔

ممبئی میں مسلمانوں کے لیے ایک رضاکارانہ حقوق گروپ کے رہنما علی اصغر محمد نے کہا کہ 'بالاآخر ہماری آوازیں سنی گئیں، صرف عالمی رہنما ہی مودی حکومت اور ان کی پارٹی کو مسلمانوں کے ساتھ اپنا رویہ بدلنے کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں