لکھاری پولیٹیکل اینڈ اینٹیگرٹی رِسک اینالسٹ ہیں۔
لکھاری پولیٹیکل اینڈ اینٹیگرٹی رِسک اینالسٹ ہیں۔

افغان طالبان اور بھارت کے درمیان بڑھتے تعلقات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ سیاست ہر طرح کے اقدار اور نظریات سے بالاتر ہوتی ہے۔ پاکستان کو بہت احتیاط کے ساتھ ان تعلقات پر نظر رکھنی چاہیے تاکہ وہ ناصرف اپنی خارجہ پالیسی کی سمت درست کرسکے بلکہ عالمی سطح پر اپنی حیثیت کو بھی جان سکے۔

بھارت کی وزارتِ خارجہ کے نمائندوں کے حالیہ دورے کا مقصد تو بظاہر انسانی امداد کی ترسیل پر بات چیت کرنا تھا لیکن اس میں علاقائی سلامتی کے معاملات اور خاص طور پر انسدادِ دہشتگردی پر بھی بحث کی گئی۔ طالبان حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں نے بھارتی وفد سے ملاقات کی اور انہیں اس بات کا یقین دلایا کہ لشکر طیبہ، جیش محمد اور حزب المجاہدین جیسے گروہوں کی جانب سے افغان سرزمین کو بھارت کے خلاف استعمال ہونے سے روکا جائے گا۔

یہ افغان طالبان اور بھارت کے درمیان پہلا رابطہ نہیں ہے بلکہ طالبان کی جانب سے افغانستان کا دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے سے قبل بھی طالبان کے ساتھ بھارت کے بیک چینل رابطے تھے اور طالبان کی جانب سے کابل پر قبضہ کرنے کے کچھ ہفتے بعد ہی بھارتی حکام نے دوحہ میں طالبان نمائندوں سے بات چیت کی تھی۔ بھارت ایک طویل عرصے سے اس بات کو تسلیم کرتا آیا ہے کہ افغانستان بھارت کی سلامتی اور خطے کے استحکام کے لیے اہم ہے اور یہ کہ طالبان حکومت کی کھلی مخالفت حتیٰ کہ اس کے حوالے سے غیر جانبدار رہنے کا موجودہ رویہ اپنانا بھی ممکن نہیں ہے۔

مزید پڑھیے: افغانستان پر فائدے سمیٹنے کیلئے بھارت، ایران، قطر ہم سے آگے چل رہے ہیں؟

بی جے پی کے رہنماؤں کی جانب سے حضرت محمدﷺ کے حوالے سے گستاخانہ بیان دینے کے بعد عسکریت پسند گروہوں کی طرف سے بھارت پر حملوں کی دھمکیاں دی گئیں۔ ان دھمکیوں کے بعد افغان طالبان کے حوالے سے بھارت کے اس احساس کو مزید تقویت ملی۔

بھارت کی طرف سے ہونے والے اقدامات (جو ان دھمکیوں سے پہلے اٹھائے گئے) اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ طالبان کی حکومت انسانی امداد، بین الاقوامی تعلقات اور اپنی حکومت کی قبولیت کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے وفاداری پر ترجیح دے گی۔

بھارت کے ساتھ تعلقات کے بعد پاکستان کے سامنے طالبان کی پوزیشن بہتر ہوجائے گی، (بالکل ویسے ہی جیسے وہ پاکستانی طالبان کو قابو میں رکھنے یا چھوٹ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں)۔ دوسروں کے ساتھ تعلقات استوار کرکے افغان طالبان اس بات کو ممکن بنانا چاہتے ہیں کہ وہ سفارتی اور معاشی امداد کے حوالے سے پاکستان پر بہت زیادہ منحصر نہ رہیں۔

اس بارے میں ایک بحث جاری ہے کہ آیا یہ پاکستان کی گرتی ہوئی عالمی حیثیت کی عکاسی ہے یا افغان طالبان کی بڑھتی ہوئی سیاسی بصیرت کا اشارہ۔ طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ دوطرفہ سرپرستی کا رشتہ 1990ء کی دہائی میں کثیر قطبیت کے دور کے مقابلے میں کم مفید ہے۔

یہ بات تو بہرحال واضح ہے کہ پاکستان کو ان حقائق کی روشنی میں اپنی خارجہ پالیسی تیار کرنا ہوگی۔ اس میں اہم پہلو ہمارے دفاعی حلقوں اور ان سے زیادہ عوام کی جانب سے اس بات کو تسلیم کرنا ہے کہ طالبان ہمیشہ اپنے مفاد کو دیکھتے ہوئے ہی فیصلے کریں گے۔

مزید پڑھیے: کابل میں طالبان تو آگئے لیکن کیا من و سلویٰ بھی اتار سکیں گے؟

یہ خطے میں بھارت کے اثر و رسوخ کی بھی یاددہانی ہے اور اس اثر و رسوخ کے پیچھے بھارت کی معاشی قوت ہے۔ بھارت نے انسانی امداد کے ذریعے افغان طالبان تک رسائی تو حاصل کرلی ہے لیکن وہ تجارتی معاہدوں اور ممکنہ طور پر عالمی مالیاتی منڈیوں تک رسائی میں طالبان کی مدد کے ذریعے اس رابطے کو برقرار بھی رکھے گا۔

پاکستان کو اس بات پر بھی نظر رکھنی چاہیے کہ ان واقعات سے طالبان دھڑوں کے حوالے سے کیا نتائج نکل سکتے ہیں اور ان کا سلامتی سے متعلق معاملات پر کیا اثر ہوسکتا ہے۔ طالبان کے اندرونی اختلافات کے بارے میں سب جانتے ہیں، ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو دنیا کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں تو کچھ وہ ہیں جو اپنے اصولوں اور اقدار پر کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہی ہیں۔ وہاں کبھی عالمی برادری کو لالچ دی جاتی ہے (جیسے لڑکیوں کے لیے ثانوی تعلیم بحال کرنے کی باتیں) اور کبھی سخت گیر افراد کو (جیسے خواتین کے لیے نقاب کی پابندی)۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ طالبان کے اندر سے بھارتی حکومت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی مخالفت کی جائے گی۔ خاص طور پر موجودہ مسلم مخالف بی جے پی حکومت میں۔ ان اختلافات کی وجہ سے طالبان میں موجود منحرفین میں لشکر طیبہ جیسے گروہوں کے لیے حمایت بڑھ سکتی ہے۔ لیکن یہ حمایت صرف لشکر طیبہ تک محدود نہیں ہوگی بلکہ ایسا پاکستانی طالبان کے لیے بھی ہوگا جس سے پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں گے۔

جن لوگوں کو خدشہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی کامیابی مذہبی سیاست اور انتہا پسند گروہوں کی حوصلہ افزائی کرے گی وہ اب طالبان کے بھارت کے ساتھ تعلقات کی طرف اشارہ کرکے یہ ظاہر کرسکتے ہیں کہ طالبان کے نظریات عملی سیاست کے تابع ہوگئے ہیں۔

مزید پڑھیے: پاکستان میں خارجہ پالیسی سے متعلق ہونے والی اہم غلطیاں

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بی جے پی کی اس وقت کی ترجمان نوپور شرما کے گستاخانہ تبصرے کے بعد بی جے پی کے مسلم مخالف ونگ کو ’جنونی‘ قرار دیا اور اس کی مذمت کی۔ تاہم بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے طالبان کی خواہش پر اس بیان کا اثر ابھی تک ظاہر نہیں ہوا۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی بنانے والوں کو افغانستان اور بھارت کے بڑھتے تعلقات کے حوالے سے چاک و چوبند رہنا چاہیے۔ انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے گریم اسمتھ نے واضح طور پر کہا ہے کہ طالبان قیادت ملکی حکومت چلانے کے مشکل کام کے حوالے سے پریشانی کا شکار ہے۔ وہ 'ماضی اور مستقبل' میں الجھ کر رہ گئے ہیں، وہ کبھی 'اپنی ماضی کی حکومت کا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہتے ہیں تو کبھی مستقبل کی جانب دیکھ کر کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں'۔

ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ وہ کس راستے کا انتخاب کریں گے، لیکن وہ جس راستے کا بھی انتخاب کریں پاکستان کو اس کے لیے تیار رہنا ہوگا۔


یہ مضمون 13 جون 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں