بنگلہ دیش: بی جے پی رہنماؤں کے گستاخانہ تبصروں کےخلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری

16 جون 2022
ڈھاکا میں  10 ہزار افراد نے  توہین آمیز ریمارکس کے خلاف مظاہرہ کیا—فوٹو:اے ایف پی
ڈھاکا میں 10 ہزار افراد نے توہین آمیز ریمارکس کے خلاف مظاہرہ کیا—فوٹو:اے ایف پی

بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں تقریباً 10 ہزار افراد نے بھارتی حکمران جماعت بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کے رہنماؤں کے پیغمبراسلام ﷺ کے بارے میں ادا کیے گئے توہین آمیز ریمارکس کے خلاف مظاہرہ کیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی خبر کے مطابق بی جے پی رہنماؤں کی جانب سے توہین آمیز کلمات نے پورے عالم اسلام میں غم و غصے اور اشتعال کی لہر کو جنم دیا ہے جب کہ رواں ہفتے کے دوران بنگلہ دیش میں ہونے والا یہ دوسرا بڑا احتجاجی مظاہرہ تھا۔

بھارت کے مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اس دوران بھارت میں حکام نے آنے والے جمعہ کی نماز کے لیے کئی شہروں میں سیکیورٹی سخت کرنے کا حکم دیا ہے جب کہ گزشتہ ہفتے احتجاج کے دوران 2افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بی جے پی رہنماؤں کے پیغمبر اسلام ﷺ کے متعلق توہین آمیز ریمارکس، مسلم دنیا میں غم و غصے کی لہر

26 مئی کو بھارت کی حکمران جماعت کی ترجمان کے توہین آمیز بیان کے بعد گزشتہ جمعہ کو ایشیا بھر میں بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکلے تھے۔

تقریباً 20 ممالک کی حکومتوں نے پیغمبر اسلام ﷺ کے بارے میں نوپور شرما کے بیان کی وضاحت کے لیے بھارتی سفیروں کو طلب کیا۔

بنگلہ دیش میں آج کیے گئے مظاہرے میں مظاہرین نے ڈھاکہ کی سب سے بڑی مسجد کے سامنے ریلی نکالی اور نعرے لگائے کہ دنیا کے مسلمان متحد ہو جائیں، مظاہرین نے احتجاج کے دوران بھارتی سفارت خانے کی جانب بڑھنے کی بھی کوشش کی تاہم، پولیس نے انہیں روک دیا۔

سینئر پولیس اہلکار انعام الحق نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تقریباً 10 ہزار پر امن مظاہرین نے احتجاجی مارچ میں شرکت کی۔

یہ بھی پڑھیں: توہین آمیز بیان کے خلاف بھارتی مسلمانوں کا احتجاج جاری

اس احتجاج کا انتظام بنگلہ دیش کی سب سے بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک جماعت اسلامی اندولن بنگلہ دیش نے کیا تھا، بنگلہ دیش دنیا کی چوتھی سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے۔

بنگلہ دیش کے بڑے شہروں میں گزشتہ جمعہ کے روز تقریباً ایک لاکھ 50 ہزار لوگوں نے مظاہرے کیے تھے، ان مظاہروں کے دوران دارالحکومت ڈھاکا میں 20 ہزار لوگوں نے احتجاج کیا جب کہ دیگر قصبوں اور یونیورسٹیوں میں ہزاروں افراد مظاہروں میں شامل تھے۔

آج ڈھاکا میں نکالے جانے والی ریلی کے مقررین نے بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کیا مطالبہ کیا اور وزیر اعظم شیخ حسینہ سے بھارت کے خلاف باضابطہ طور پر احتجاج درج کرانے کا مطالبہ کیا۔

13 سال سے اقتدار میں موجود شیخ حسینہ بھارت کی قریبی اتحادی ہیں اور انہوں نے ابھی تک نوپورشرما کے ریمارکس کی مذمت نہیں کی۔

یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی حضور ﷺ سے متعلق توہین آمیز بیان کا نوٹس لے، وزیر خارجہ

سوشل میڈیا پر اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے بارے میں توہین آمیزبیانات بنگلہ دیش میں اکثر پرتشدد مظاہروں کو جنم دیتے ہیں، ان مظاہروں کے دوران اکثر اقلیتوں کے خلاف فسادات بھی پھوٹ پڑھتے ہیں۔

گزشتہ سال کم از کم 6 افراد اس وقت مارے گئے تھے جب کہ بنگلہ دیش کے جنوب مشرق کے ایک ہندو مندر میں قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کے بعد بڑے پیمانے پر ہندو مخالف فسادات پھوٹ پڑے تھے۔

بلڈوزر

2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی پر بھارت کی مسلم اقلیت کے خلاف امتیازی پالیسیوں کی حمایت کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔

نوپور شرما کے بیان نے بی جے پی کو نقصان پہنچایا جب کہ پارٹی نے انہیں عہدے سے معطل کر دیا تھا اور اس بات پر زور دیا تھا کہ وہ تمام مذاہب کا احترام کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : بھارت: توہین آمیز ریمارکس کے خلاف احتجاج پر گرفتار مسلمان سماجی کارکن کا گھر مسمار

گزشتہ جمعہ کو بھارت کے کئی شہروں میں بڑے پیمانے پر پرامن مظاہرے ہوئے تھے جب کہ ان مظاہروں کے دوران مظاہرین کی جانب سے پتھر اور بوتلیں پھینکنے کے بعد پولیس نے مشرقی رانچی میں فائرنگ کی تھی جس میں 2 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

ان مظاہروں کے بعد سے اب تک ریاست اتر پردیش میں متعدد افراد کے گھروں کو بلڈوزر سے گرایا گیا ہے جن کو مظاہروں کے دوران گرفتار کیا گیا یا احتجاج میں ان کی موجودگی کی شناخت کی گئی، ریاست اتر پردیش میں سخت گیر ہندو یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلامی گروپوں کی بھارتی مسلمانوں سے گستاخانہ بیان پر احتجاج ختم کرنے کی اپیل

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس کریک ڈاؤن کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے، انسانی حقوق کے گروپ نے اس کریک ڈاؤن کو بد ترین ظلم اور طاقت کا ضرورت سے زیادہ استعمال قرار دیا۔

بھارت کے مقامی میڈیا کی خبر کے مطابق اتر پردیش، مغربی بنگال، اور بھارت کے زیر قبضہ کشمیر سمیت متعدد علاقوں میں حکام نے سیکیورٹی حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ جمعہ کو مساجد کے ارد گرد سیکیورٹی کے سخت انتظامات کریں۔

ہندوستان ٹائمز اخبار نے رپورٹ کیا کہ ان ریاستوں کے چند اضلاع میں 4 سے زیادہ افراد کے ایک جگہ جمع ہونے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں