’برطانیہ میں پایا گیا پولیو وائرس 22 ممالک میں موجود ہے‘

اپ ڈیٹ 24 جون 2022
اس حوالے سے پاکستان پر شک کیا جا رہا ہے کہ شاید اس وائرس کے انگلینڈ پہنچنے کا ذریعہ پاکستان ہے— فائل فوٹو: وائٹ اسٹار
اس حوالے سے پاکستان پر شک کیا جا رہا ہے کہ شاید اس وائرس کے انگلینڈ پہنچنے کا ذریعہ پاکستان ہے— فائل فوٹو: وائٹ اسٹار

برطانیہ میں گزشتہ چار دہائیوں میں پہلی بار لندن میں سیوریج کے نمونوں میں پولیو وائرس کا پتا چلنے کے بعد شک کیا جا رہا ہے کہ شاید اس وائرس کے انگلینڈ پہنچنے کا ذریعہ پاکستان ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں صحت کے حکام کا دعویٰ ہے کہ برطانیہ میں پایا گیا ’ویکسین سے نکلنے والا وائرس‘ 22 ممالک میں موجود ہے جبکہ مقامی طور پر پائی جانے والی قسم وائلڈ پولیو وائرس (ڈبلیو پی وی) ہے۔

مزید پڑھیں: لندن: سیوریج کے نمونوں میں پولیو وائرس رپورٹ

برطانوی ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی نے کہا کہ یہ وائرس ممکنہ طور پر کسی ملک سے درآمد ہوا ہے اور ایجنسی نے والدین سے کہا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے بچوں کو اس بیماری کے خلاف مکمل حفاظتی ٹیکے لگوائے جائیں۔

پاکستان کے انسداد پولیو پروگرام کے نیشنل کوآرڈینیٹر ڈاکٹر شہزاد بیگ نے ڈان کو بتایا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ وائرس پاکستان سے آیا ہے کیونکہ برطانیہ کے حکام نے ابھی تک جینوم سیکوئینسنگ کے نتائج کا اعلان نہیں کیا۔

جینوم سیکوئینسنگ سے وائرس کے ماخذ کا تعین کرنے میں مدد ملتی ہے کیونکہ مختلف علاقوں میں پائے جانے والے نمونوں میں مختلف رائبونیوکلک ایسڈ ہوتا ہے، جینوم سیکوئینسنگ کے ذریعے متعدد بار پاکستان میں رپورٹ ہوئے کیسز کا ماخذ افغانستان سامنے آیا تھا۔

ڈاکٹر شہزاد بیگ نے کہا کہ ہم وائرس کے جینیاتی نمونے کی رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں، دنیا میں پولیو وائرس کی دو اقسام ہیں: ڈبلیو پی وی جو کہ پاکستان اور افغانستان میں موجود ہے اور ویکسین سے نکلنے والاپولیو وائرس (وی ڈی پی وی)، لندن میں ماحولیاتی نمونے وی ڈی پی وی کے پائے گئے جو کہ 22 ممالک میں موجود ہے، اس لیے جینیاتی سیکوئینسنگ کی رپورٹ آنے سے پہلے پاکستان کو اس کا ذریعہ قرار دینے کا الزام نہیں لگانا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: 'ملاوی' میں پائے گئے پولیو وائرس کا ذمہ دار پاکستان کو قرار نہیں دیا جاسکتا، حکام

انہوں نے کہا کہ ویکسین سے نکلنے والی قسم نائجیریا، مصر، پاکستان، افغانستان، یمن، سوڈان، وسطی افریقہ اور دیگر کئی ممالک سے آسکتی ہے۔

وزارت صحت کے ایک ماہر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈبلیو پی وی کی تین اقسام ہیں، دہائیوں پہلے ’ٹرائی ویلنٹ‘ نام کی ایک ویکسین استعمال کی گئی تھی کیونکہ اس میں تینوں اقسام موجود تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ 2016 میں دوسری قسم کے خاتمے کے بعد ڈبلیو پی وی کی پہلی اور تیسری قسم کے ساتھ 'بائی ویلنٹ' ویکسین متعارف کرائی گئی تھی، تاہم 2020 میں ٹائپ ٹو اچانک دوبارہ سامنے آیا جس کی وجہ سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ وائرس کے دوبارہ سر اٹھانے کا امکان ہے، اس دوسری قسم کے وائرس کو وی ڈی پی وی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ دنیا سے مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اورل پولیو ویکسین میں ایک کمزور ویکسین وائرس ہوتا ہے جو انسانی جسم میں مدافعتی ردعمل کو متحرک کرتا ہے، جب کسی بچے کو او پی وی لگائی جاتی ہے تو کمزور ویکسین وائرس محدود مدت کے لیے آنت میں پروان چڑھتا ہے، اس طرح اینٹی باڈیز بنا کر قوت مدافعت پیدا کرتا ہے وقت کے ساتھ ویکسین وائرس بھی خارج ہوجاتا ہے، ناکافی صفائی والے علاقوں میں یہ خارج ہونے والا ویکسین وائرس دم توڑنے سے پہلے قریبی کمیونٹی میں پھیل سکتا ہے (اور دوسرے بچوں کو 'غیر فعال' امیونائزیشن کے ذریعے تحفظ فراہم کرتا ہے)۔

انہوں نے وضاحت کی کہ شاذ و نادر مواقع پر اگر کسی آبادی کو حفاظتی ٹیکوں کی شدید کمی ہو تو خارج شدہ ویکسین کا وائرس طویل عرصے تک گردش میں رہ سکتا ہے، اسے جتنی دیر تک زندہ رہنے دیا جاتا ہے، اس سے اتنی ہی زیادہ جینیاتی تبدیلیاں گزرتی ہیں، بہت ہی کم واقعات میں ویکسین وائرس جینیاتی طور پر ایک ایسی شکل میں تبدیل ہو سکتا ہے جو مفلوج کرسکتا ہے، یہ وہی ہے جسے ویکسین سے نکلنے والے پولیو وائرس کے نام سے جانا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: پولیو کیس رپورٹ ہونے پر موزمبیق کا پاکستان پر الزام

صحت عامہ کے ماہر ڈاکٹر ندیم جان نے ڈان کو بتایا کہ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ لندن میں پایا جانے والا وائرس یہاں سےگیا تو پاکستان مشکل بلکہ شرمناک صورتحال سے دوچار ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پہلے ہی ایک ٹریول ایڈوائزری کے تحت ہے جس کی وجہ سے ہر شخص کو بیرون ملک سفر کرنے سے پہلے ویکسینیشن کرا کر سرٹیفکیٹ ساتھ رکھنا پڑتا ہے، ہم یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ویکسینیشن کا 90 فیصد سے زیادہ ہدف حاصل کر لیا گیا ہے، اگر یہ پتا چلا کہ وائرس پاکستان کا ہے تو دنیا ہمارے دعوؤں پر شک کر سکتی ہے۔

ڈاکٹر شہزاد بیگ نے ایک سوال کے جواب میں دعویٰ کیا کہ پاکستان میں پولیو وائرس عام طور پر کنٹرول میں ہے، سوائے شمالی وزیرستان کے کیونکہ وہاں پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کیا جاتا ہے اور لوگ پولیو ٹیموں کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے۔

انہوں نے کہا کہ تقریبا 200 ممالک پہلے ہی وائرس کو ختم کر چکے ہیں اور پاکستان بھی ہدف حاصل کر سکتا ہے، بدقسمتی سے شمالی وزیرستان وائرس کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے لیکن اگر ہم وہاں وائرس کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے تو ہم اسے ملک سے ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں