روس، یوکرین جنگ کے باعث پاکستان کو ایل این جی کی خریداری میں مشکلات کا سامنا

اپ ڈیٹ 26 جون 2022
سینیٹر مصدق ملک نے کہا کہ ہم نے 3 سے 4  ٹینڈرز راؤنڈز کے 2 راؤنڈز میں حصہ لیا لیکن کسی نے جواب نہیں دیا —فائل فوٹو: اے پی پی
سینیٹر مصدق ملک نے کہا کہ ہم نے 3 سے 4 ٹینڈرز راؤنڈز کے 2 راؤنڈز میں حصہ لیا لیکن کسی نے جواب نہیں دیا —فائل فوٹو: اے پی پی

وفاقی کابینہ کے اہم رکن سینیٹر مصدق ملک نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان ان یورپی ممالک کی قوت خرید کا مقابلہ نہیں کر سکتا جو ایندھن کے عالمی ذخائر کے ممکنہ صارفین اور خریدار ہیں جن کی پاکستان کو بھی اشد ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ یوکرین پر روسی حملے سے پیدا ہونے والے توانائی کے بحران کے باعث عالمی ایندھن کے ذخائر پر دباؤ پڑ رہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک کا کہنا تھا کہ پاکستان کی مائع قدرتی گیس (ایل این جی) خریدنے میں ناکامی نے حکام کو بجلی کی پیداوار کے لیے توانائی کے متبادل ذرائع کی جانب منتقل ہونے پر مجبور کیا ہے، جس کے نتائج آنے میں ایک ماہ یا اس سے زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں بجلی کا شدید بحران، شہریوں کی تکالیف و مشکلات میں اضافہ

انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) میں سنٹر فار ایکسی لینس ان جرنلزم (سی ای جے) کے زیر اہتمام 2 روزہ کانفرنس کے دوران میڈیا سے گفتگو میں ایک صحافی کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں مصدق ملک نے کہا کہ صورتحال یہ ہے کہ ہم نے 3 سے 4 ٹینڈرز راؤنڈز کے دوران 2 راؤنڈز میں حصہ لیا لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یوکرین کے ساتھ جنگ کی وجہ سے روس سے سپلائی معطل ہے اس لیے یورپی ممالک بھی ہر جگہ سے گیس خرید رہے ہیں جس کے نتیجے میں ڈھائی سال پہلے 4 ڈالر میں ملنے والی ایل این جی اب 40 ڈالر میں بھی دستیاب نہیں ہے، روس کی یوکرین کے ساتھ جنگ نے خطرناک بحران پیدا کردیا ہے۔

وزیر مملکت برائے پیٹرولیم کے خیالات اس وقت سامنے آئے ہیں جب ملک 3 ایل این جی سلاٹس کے لیے بولی لگانے والے کو تلاش کرنے میں ناکام رہا اور جولائی کے آخری ہفتے کے لیے ایک اور سلاٹ کے لیے اب تک کی سب سے زیادہ مہنگی سلاٹ حاصل کی جبکہ یورپی صارفین نے روسی سپلائی میں تعطل کے باعث بجلی کی پیداوار کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اسپاٹ مارکیٹ سے خریداری کی۔

سرکاری طور پر چلنے والے پاکستان ایل این جی لمیٹڈ (پی ایل ایل) نے 16 جون کو 4 کارگوز کے لیے ٹینڈر جاری کیا تھا، 4 میں سے جولائی کے پہلے اور دوسرے ہفتے کے لیے ایک، ایک اور آخری ہفتے کے لیے 2 کارگوز کی ضرورت کے حساب سے مگر 2 سے 3، 8 سے 9 اور 25 سے 26 جولائی کی ڈیلیوری ونڈوز کے لیے کوئی بولی دہندہ سامنے نہیں آیا۔

مزید پڑھیں: ملک میں بجلی کا 8 ہزار میگا واٹ کا شارٹ فال بدستور برقرار

جولائی کے پہلے ہفتے میں پی ایل ایل کی جانب سے ایل این جی کارگو حاصل کرنے کی یہ تیسری ناکام کوشش تھی۔

اس سے قبل 31 مئی اور 7 جون کو جاری کیے گئے 2 ٹینڈرز میں بالترتیب صرف 2 اور ایک بولی لگانے والے کو راغب کیا گیا تھا لیکن ان میں سے کوئی بولی لگانے والی کمپنی تکنیکی طور پر جوابدہ نہیں تھی، اس لیے ٹینڈرز بغیر کھولے واپس کر دیے گئے۔

وزیر مملکت برائے پیٹرولیم نے کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس اس وقت وافر مقدار میں انرجی نہیں ہے، گیس دستیاب نہیں اور ہم اتنی مہنگی گیس برداشت نہیں کر سکتے، اس لیے ہم متبادل کا بندوبست کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پیداوار میں حالیہ اضافہ، کوئلے اور فرنس آئل کی درآمدات اسی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔

توانائی کی بڑھتی ہوئی کمی کو پورا کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے کیے جانے والے نئے اقدامات کی تفصیلات شیئر کرتے ہوئے انہوں نے ایک ماہ کے اندر فرنس آئل کے 5 جہازوں کی درآمد اور بجلی کے پیداواری یونٹوں کو چلانے کے لیے کوئلے کے حصول کی بڑی مقدار کا حوالہ دیا۔

یہ بھی پڑھیں: ایل این جی کا کھیل: محض نااہلی یا بدعنوانی؟

سینیٹر مصدق ملک نے امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آنے والے مون سون سیزن سے بجلی کے بحران کو کافی حد تک ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ بجلی کے شارٹ فال اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہونے والی تکلیف کو ختم کرنے میں ہفتے لگ سکتے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ 15 جولائی کے بعد صورتحال میں بہتری کا امکان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ہائیڈل انرجی کے ذریعے تقریباً 6 ہزار میگاواٹ سے 8 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرتے ہیں لیکن اس کے لیے پانی کے بہاؤ کی خاص مقدار کی ضرورت ہوتی ہے، 15 جولائی کے بعد کچھ ریلیف کی امید ہے۔

سینیٹر مصدق ملک نے کہا کہ یقین ہے کہ شہباز شریف کی حکومت کو ان نئے اقدامات کی 'سیاسی قیمت' ادا کرنی پڑے گی لیکن انہوں نے ان اقدامات کو تباہ حال معیشت کو بچانے کے لیے اہم قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو ایل این جی کارگوز کیلئے 6 مہنگی بولیاں مل گئیں

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب کا اندازہ لگانے میں ناکام رہی جبکہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ چھڑنے کے بعد حالات مزید خراب ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ ان تمام سخت فیصلوں کی سیاسی قیمت کیا ہے، ہم جانتے ہیں کہ یہ فیصلے ہمارے ووٹ بینک کو متاثر کریں گے لیکن ہمارے پاس اور کیا آپشنز ہیں؟

وزیر مملکت نے کہا کہ کیا ہم بیکار بیٹھ کر دیکھتے رہیں کہ ملک میں سری لنکا جیسے حالات پیدا ہوجائیں؟ پی ٹی آئی کی حکومت نے سیاسی فائدے کے لیے ملکی معیشت کے لیے بارودی سرنگیں بچھائیں، ہم یہاں اپنی سیاست نہیں، ملک بچانے آئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں