وفاقی وزیر اور آئی ٹی صنعت کا بجٹ اقدامات پر اظہار مایوسی

اپ ڈیٹ 26 جون 2022
وفاقی وزیر آئی ٹی امین الحق نے کہا کہ ٹیلی کام سیکٹر آئی ٹی سیکٹر کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے — فائل فوٹو: پی آئی ڈی
وفاقی وزیر آئی ٹی امین الحق نے کہا کہ ٹیلی کام سیکٹر آئی ٹی سیکٹر کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے — فائل فوٹو: پی آئی ڈی

وفاقی وزیر آئی ٹی امین الحق نے انفارمیشن ٹیکنالوجی سیکٹر کو دیے گئے محدود ریلیف اور ٹیلی کام انڈسٹری کو نہ ہونے کے برابر ٹیکس سپورٹ دیے جانے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت سے وابستہ شخصیات نے بھی وزیر خزانہ کے اعلان کردہ وفاقی بجٹ کے اقدامات پر ناپسندیدہ بیانات جاری کیے ہیں۔

جمعہ کو پارلیمنٹ میں وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کے اعلانات کے جواب میں وفاقی وزیر آئی ٹی اور ٹیلی کمیونیکیشن سید امین الحق کا کہنا تھا کہ فنانس ڈویژن کو فوری طور پر اس شعبے کو فروغ دینے اور اس کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے آئی ٹی کی وزارت کی جانب سے بھیجی گئی تجاویز اور سفارشات پر غور و خوض کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: اگلے سال تک سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک دگنے ہوجائیں گے، امین الحق

وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کی پارلیمنٹ میں تقریر کے بعد امین الحق نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ آئی ٹی انڈسٹری پر ودہولڈنگ ٹیکس اور کچھ دیگر شرائط کے ساتھ ساتھ آئی ٹی سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے کیپٹل گین ٹیکس کو ہٹانے کا فیصلہ فائدہ مند ہو سکتا ہے لیکن یہ اقدامات ناکافی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ٹیلی کام سیکٹر، آئی ٹی سیکٹر کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ آئی ٹی کے زیادہ تر کاروبار ٹیلی کام اور ڈیٹا سروسز پر مبنی ہیں، مواصلاتی سہولیات کے بغیر ہم آئی ٹی سیکٹر کے لیے مقرر کردہ اہداف کیسے حاصل کر سکتے ہیں جن کا پوری طرح سے انحصار عالمی رابطے پر ہے؟

بھاری ٹیکس کا شکار مارکیٹ

وفاقی وزیر کی طرح ٹیلی کام انڈسٹری نے بھی ٹیکس کی بلند شرح اور دیگر چارجز پر تشویش کا اظہار کیا اور وزارت خزانہ کو پالیسی سازوں اور ریگولیٹرز کی جانب سے عائد کردہ ’سخت شرائط‘ سے آگاہ کیا۔

ٹیلی نار کے سی ای او عرفان وہاب خان نے ڈان کو بتایا کہ ہمارے صارفین پر دنیا کی بلند ترین شرح پر ٹیکس لگایا جاتا ہے، انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ ٹیکسوں نے اسپیکٹرم اور لائسنس کی تجدید کے اخراجات میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔

مزید پڑھیں: ایم کیو ایم کے امین الحق نے وزیر آئی ٹی کی ذمہ داریاں سنبھال لیں

انہوں نے مزید کہا کہ ٹیلی کام انڈسٹری ایک غیر یقینی اور غیر متوقع کاروباری ماحول میں کام کر رہی ہے، خاص طور پر ٹیکس، اسپیکٹرم روڈ میپ، عدم اعتراض سرٹیفکیٹ (این او سی) فیس اور رائٹ آف وے ایشوز جیسے معاملات کے باعث کافی مشکلات درپیش ہیں۔

ٹیلی کام انڈسٹری نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کاروبار کرنے کی لاگت اسپیکٹرم فیس بڑھنے سمیت مختلف عوامل کی وجہ سے نمایاں طور پر زیادہ ہو گئی ہے۔

دنیا بھر میں موبائل نیٹ ورک آپریٹرز کے مفادات کی نمائندگی کرنے والی تنظیم ’جی ایس ایم اے‘ نے اطلاع دی ہے کہ پاکستان فی صارف کم اوسط آمدنی (اے آر پی یو) کے لحاظ سے 238 ممالک میں 235 ویں نمبر پر ہے، جو 2003 میں 9 ڈالر سے کم ہو کر اس سال جون تک تقریباً ایک ڈالر پر آگیا ہے۔

اے آر پی یو سیلولر موبائل آپریٹرز (سی ایم اوز) کی مالی پوزیشن کی پیمائش کے لیے ایک بنیادی ٹول ہے۔

دوسری جانب جاز کے سی ای او عامر ابراہیم نے کہا کہ حکومت کو ٹیلی کام سروسز کو صارفین کے لیے سستی بنانے کے لیے انڈسٹری کے لیے ٹیکس کم کرنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: پہلے معاہدے پر عملدرآمد کیا جائے پھر حکومت میں شراکت داری ہوگی، ایم کیو ایم

انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے سے حکومت کو مجموعی اقتصادی ترقی سے بھی فائدہ ہوگا کیونکہ ترقی میں ٹیلی کام اور انٹرنیٹ کی شراکت ہے۔

پاکستان موبائل فون مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے صدر امیر اللہ والا نے کہا کہ بجٹ میں لیے گئے سخت فیصلوں کی حمایت کرنا ضروری ہے، موبائل مینوفیکچرنگ چینی موبائل فون برانڈز کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی مدد سے چلنے والی ہائی ٹیک صنعت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس لیے ملک میں موبائل مینوفیکچرنگ کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے قیادت اور پالیسی میں تسلسل کو یقینی بنانا ناگزیر ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں