جون کے وسط میں جب وفاقی وزیرِ خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے بجٹ تقریر کی اور مالی سال 23ء-2022ء کے اعداد و شمار کا تخمینہ جاری کیا تو اس وقت ہی یوں محسوس ہورہا تھا کہ مشکل ترین حالات میں پیش کردہ بجٹ کسی طور پر حقیقی نہیں ہوسکتا ہے۔ اسی وجہ سے بجٹ پر اپنی گزشتہ تحریر میں حکومت کو رابن ہڈ قرار دیا تھا۔

تحریر کے آخر میں اس خدشے کا بھی اظہار کردیا تھا کہ آئندہ چند ماہ میں حکومت ضمنی یا منی بجٹ لے کر آئے گی مگر یہ ہرگز نہیں معلوم تھا کہ حکومت کو اس بجٹ کی منظوری سے پہلے ہی آئی ایم ایف کی ہدایت پر بجٹ میں بہت کچھ تبدیل کرنا پڑجائے گا اور رابن ہڈ آگے بڑھ کر طبقہ امرا کا خون تک نچوڑ لے گا۔

وفاقی وزیرِ خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں 4 فیصد اضافی ٹیکس لگانے کا اعلان کیا تھا۔ مگر پھر چند روز بعد جب آئی ایم ایف نے بجٹ اعداد و شمار کا جائزہ لیا تو فنڈ کی جانب سے ٹیکس کی وصولی کی اہداف کو ناکافی قرار دیا گیا اور ٹیکس وصولی کے 7 ہزار ارب روپے کے ہدف میں مزید 400 ارب کے اضافے کے ساتھ مجموعی ہدف 7 ہزار 400 ارب کردیا گیا۔ اس کے علاوہ پاکستان کے تیزی سے گرتے زرِمبادلہ ذخائر کے باوجود آئی ایم ایف نے بے رحمی کے ساتھ بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے واپس کردیا اور مزید ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا۔

اب وزیرِاعظم شہبار شریف نے سپر ٹیکس کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔ اس میں پیداواری اور خدمات کے شعبے کی 10 صنعتوں پر 4 فیصد ٹیکس کے علاوہ ان کے نفع پر مزید 6 فیصد اضافی ٹیکس لگا دیا گیا۔ اس طرح 13 شعبہ جات کی کمپنیوں پر سپر ٹیکس کی شرح 10 فیصد ہوجائے گی۔

سپر ٹیکس کا نفاذ سیمنٹ، اسٹیل، آئل اینڈ گیس، کھاد، ٹیکسٹائل، بینکاری، گاڑیوں کی صنعت، سگریٹ، ڈبہ بند دودھ اور مشروبات، کیمیکلز، ایئر لائنز اور ایل این جی کی صنعت پر ہوگا۔ اس سپر ٹیکس کے نفاذ سے ان شعبوں سے متعلق کمپنیوں پر ٹیکس کی شرح 29 فیصد سے بڑھ کر 39 فیصد ہوجائے گی۔

وزیرِاعظم شہباز شریف  نے مخصوص صنعتوں پر 10 فیصد ’سپر ٹیکس‘ عائد کردیا ہے— تصویر: فائل
وزیرِاعظم شہباز شریف نے مخصوص صنعتوں پر 10 فیصد ’سپر ٹیکس‘ عائد کردیا ہے— تصویر: فائل

بینکوں کو اس سال کے آخر میں 45 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ اس سپر ٹیکس کے نفاذ سے مختلف کمپنیوں پر اثرات مختلف ہوں گے مگر اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کا مشورہ دینے والوں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے کمپنیوں کے نفع میں 9 فیصد سے لے کر 18 فیصد تک کمی دیکھی جاسکتی ہے جبکہ زیادہ تر کمپنیوں کے نفع میں 11 سے 14 فیصد تک کمی متوقع ہے۔

وزیرِاعظم کا یہ اعلان سرمایہ کاروں اور اسٹاک مارکیٹ کے لیے حیران کن تھا اور یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی وزیرِاعظم نے سپر ٹیکس کا اعلان کیا اسٹاک مارکیٹ کریش کرگئی اور انڈیکس 2 ہزار پوائنٹس تک گر گیا مگر پھر انڈیکس دوبارہ سنبھل گیا اور منفی 1600 پوائنٹس سے زائد پر بند ہوا۔ اس کے بعد اسٹاک مارکیٹ سنبھل گئی اور موجودہ ہفتے کے آغاز سے مثبت زون میں ٹریڈ ہورہی ہے۔

معروف صنعت کار تاجر اور سرمایہ کار عارف حبیب کا اس صورتحال میں کہنا ہے کہ ’کمپنیوں نے بہت منافع بھی کمایا ہے۔ اس وقت ملک کو ٹیکس کی ضرورت ہے اور اس ٹیکس کے نفاذ سے ملازمتوں میں کمی نہیں ہوگی‘۔

عارف حبیب کی یہ بات بہت حد تک درست بھی معلوم ہوتی ہے کیونکہ سال 2021ء میں صرف پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں درج کمپنیوں نے 1100 ارب روپے سے زائد کا نفع کمایا تھا جو تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔ اسی منافع کی بنیاد پر ان کمپنیوں نے اپنے حصص یافتگان کو 500 ارب روپے کا منافع تقسیم کیا جو 2020ء کے مقابلے میں 87 فیصد زائد ہے۔ اس میں صرف بینکوں نے اپنے شراکت داروں کو 232 ارب روپے کا منافع تقسیم کیا تھا۔ اس کے علاوہ آئل اینڈ گیس شعبے نے 71 ارب روپے کا منافع تقسیم کیا تھا۔

دوسری طرف کارپوریٹس پر ٹیکس لگنے پر تاجر اور صنعت کاروں کے نمائندہ اوورسیز، انویسٹرز، چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری، وفاقی ایوان ہائے تجارت و صنعت اور تقریباً تمام ہی کاروباری تنظیمیں اور تھنک ٹینکس سپر ٹیکس لگنے پر ناراضگی کا اظہار کرتے نظر آئے ہیں۔

وفاقی وزیر برائے خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے اپنی بجٹ تقریر میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان میں تقریباً 3 ہزار ارب روپے کی ٹیکس چوری ہورہی ہے۔ انہوں نے اس چوری کو روکنے کے بجائے اس سیکٹر پر حملہ کیا ہے جو پہلے ہی ٹیکس ادا کررہا ہے۔ یعنی حکومت اور ایف بی آر نے ٹیکس وصولی کے لیے زیادہ محنت کرنے، دفتروں سے نکلنے اور سخت پالیسی سازی کے بجائے سہل طریقہ کار اپنانے کو ترجیح دی اور اس بات کا خیال نہ رکھا کہ اس فیصلے سے عام آدمی ملازمت کے مواقعوں سے محروم ہوسکتا ہے۔

وزیرِ خزانہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ملک میں تقریباً 3 ہزار ارب روپے کی ٹیکس چوری ہورہی ہے
وزیرِ خزانہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ملک میں تقریباً 3 ہزار ارب روپے کی ٹیکس چوری ہورہی ہے

اسٹیٹ بینک کی سال 2018ء میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق ذراعت کا پاکستان کی معیشت میں حصہ 19 فیصد ہے مگر ٹیکس کی مد میں اس کا حصہ محض 0.6 فیصد ہے۔ صنعتوں کا حصہ جی ڈی پی میں 20 فیصد ہے اور وہ مجموعی ٹیکسوں کا 52 فیصد ادا کرتے ہیں جبکہ خدمات کا شعبہ جی ڈی پی کا 59 فیصد ہے اور ٹیکس میں ان کا حصہ 29 فیصد ہے۔

اسٹیٹ بینک نے تجویز کیا کہ وہ ٹیکس نیٹ میں شامل افراد اور کمپنیوں کے لیے ٹیکس ریٹ بڑھانے اور نئے ٹیکس لگانے کے بجائے ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرے۔ صوبائی سطح پر ٹیکسوں میں بڑا خلا موجود ہے جس کو پُر کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ پاکستان کا غیر دستاویزی شعبہ مجموعی ملازمتوں کا 73 فیصد فراہم کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک میں ایک بڑا طبقہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔ انہیں ٹیکس وصولی کے نظام میں لانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔

پاکستان میں جس تیزی سے آمدنی میں اضافہ ہوا ہے ٹیکسوں کی وصولی اس کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ پاکستان میں انفرادی اور کارپوریٹ ٹیکس مجموعی براہِ راست ٹیکسوں کا 92 فیصد ہیں۔ پاکستان میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد اور قابلِ ملازمت آبادی کے تناسب میں بہت بڑا خلا ہے۔ ملک کی ملازمت پر موجود افرادی قوت تقریباً 6 کروڑ ہے جس میں سے صرف 21 لاکھ اپنی آمدنی پر انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

معاشی تجزیہ کار خرم شہزاد اور سمیع اللہ طارق اس بات پر متفق ہیں کہ پہلے سے ٹیکس دینے والے شعبوں پر اضافی ٹیکس کا بوجھ ڈالنے سے ملازمت کے مواقع کم ہوں گے اور کمپنیاں اپنے کاروبار کو توسیع دینے کے بجائے اس کو سکیڑنے پر توجہ دیں گی۔

خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ ’کیوں نا سپر ٹیکس وفاقی اور صوبائی اراکین پارلیمنٹ پر عائد کردیا جائے، ان کے کاروبار جس میں ریئل اسٹیٹ اور زرعی زمین شامل ہے کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے کیونکہ یہی افراد ہیں جو پاکستان کو اس نہج پر پہنچانے کے ذمہ دار ہیں‘۔

خرم شہزاد مزید تجویز کرتے ہیں کہ ’حکومت کو کارپوریٹس کے بجائے پروفیشنل پریکٹس کرنے والے ڈاکٹروں، آرکیٹیکٹس، ڈیزائنرز، بیوٹیشنز اور دیگر افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے اقدامات کرنے چاہیے تھے جبکہ ریئل اسٹیٹ اور دیگر جائیدادوں پر 50 فیصد ویلتھ ٹیکس عائد کیا جائے‘۔

حکومت خسارے میں چلنے والے اپنے کاروباری اداروں کو قومی خزانے سے رقم ادا کرنے کے بجائے انہیں بند کردے تاکہ اخراجات ختم ہوں۔ اس کے علاوہ سگریٹ پر ٹیکس بڑھا کر 80 فیصد کردیا جائے جیسا کہ عالمی سطح پر ہوتا ہے۔

مگر دنیا بھر میں ٹیکس ریٹس کیا ہیں؟ اس حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ٹیکس ریٹ کے حوالے سے دنیا کے ہر ملک میں الگ الگ طریقہ کار کو اپنایا جاتا ہے۔

ہر ملک کا ٹیکس نظام اپنی مرضی اور منشا کے مطابق اور زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے ترتیب دیا جاتا ہے۔ اس لیے ہر ملک میں ٹیکس کا نظام دوسرے ملک سے مختلف ہوتا ہے اور اسی طرح اس ٹیکس سے وصول کردہ فنڈز سے ہر ملک اپنی ترجیح کے مطابق خدمات بھی فراہم کرتا ہے۔

وہ ممالک جہاں حکومتیں انکم ٹیکس ریٹ سب سے زیادہ چارج کرتی ہیں ان میں آوری کوسٹ 60 فیصد، فن لینڈ 56.95 فیصد، جاپان 55.97 فیصد، ڈنمارک 55.90 فیصد، آسٹریا 55 فیصد، سوئیڈن 52.90 فیصد جبکہ بیلجیم، اسرائیل اور سلوانیہ میں انکم ٹیکس کی شرح 50 فیصد ہے۔ یعنی ان ملکوں میں افرادی قوت کی آمدنی پر براہِ راست ٹیکس کے ذریعے حکومت اپنے اخراجات کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

ہر ملک اپنی مرضی کے مطابق ٹیکس نظام ترتیب دیتا ہے
ہر ملک اپنی مرضی کے مطابق ٹیکس نظام ترتیب دیتا ہے

اگر کارپوریٹ ٹیکس کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان کے علاوہ پورٹا ریکو میں 37.5 فیصد، چاڈ اور عراق 35 فیصد، برازیل اور وینزویلا 34 فیصد کے تناسب سے کارپوریٹس سے ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ یعنی ان ملکوں میں بڑے کاروباری اداروں سے ٹیکس وصولی بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے۔

بعض ایسے ممالک بھی ہیں جہاں کارپوریٹ ٹیکس انتہائی کم ہے جیسے بارباڈوس میں 5.5 فیصد، ازبکستان مین 7.5 فیصد جبکہ ہنگری اور موٹینیگرو میں 9 فیصد کاروپوریٹ ٹیکس نافذ ہے۔ اس کے علاوہ ویتنام، برمودا اور بحرین میں کارپوریٹ پر کوئی ٹیکس عائد نہیں ہے۔ کارپوریٹ ٹیکس میں کمی سے یہ ملک بڑے کاروباری اداروں کو اپنے ملک میں کاروبار کی ترغیب دینا چاہتے ہیں۔

ایسے ملک جہاں پر پیداواری شعبہ زیادہ بڑا نہیں ہے اور وہاں پر صعنتی مصنوعات اور زرعی اجناس کی پیداوار نہ ہونے کے براہر ہوتی ہے تو وہ براہِ راست منافع پر ٹیکس لگانے کے بجائے سیلز ٹیکس کی آمدن پر انحصار کرتے ہیں۔ جیسے بھوٹان میں سیلز ٹیکس 50 فیصد، ہنگری میں 27 فیصد، ڈنمارک، کرویشیا، ناروے اور سوئیڈن میں 25 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہے۔

بعض ایسے ملک بھی ہیں جنہیں ٹیکس ہیون کہا جاتا ہے اور یہاں انتہائی کم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں لکسم برگ، کیمن آئی لینڈ، آئرلینڈ، موریشیئس، برمودا، مراکش، سوئزرلینڈ اور دیگر ملک شامل ہیں۔

ٹیکس ایک دو دھاری تلوار ہے۔ اگر حکومتیں انفرادی، کاروبار یا خدمات پر براہِ راست اور بلواسطہ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرتی ہیں تو اس سے بچت، سرمایہ کاری اور جدت پسندی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور کارپوریٹس اپنے کاروبار کو توسیع دینے سے گریز کرتے ہیں۔ ٹیکسوں میں کٹوتی خسارے کو بڑھا کر طویل مدتی اقتصادی ترقی کو بھی سست کرسکتی ہے جبکہ مخصوص ٹیکس ترجیحات وسائل کی تقسیم کو متاثر کرسکتی ہیں۔

اس لیے حکومت کو ٹیکس دینے والوں پر اضافی بوجھ ڈالنے کے بجائے اسٹیٹ بینک کی پیش کردہ تجویز پر عمل کرتے ہوئے ٹیکس کے لیے ان شعبہ جات کا انتخاب کرنا چاہیے جو ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں یا جی ڈی پی میں اپنے حصے کے مقابلے ٹیکسوں میں ان کا حصہ کم ہوتا ہے۔

اگرچہ سپر ٹیکس ایک سال کے لیے لگایا گیا ہے مگر اس عرصے میں معیشت میں جو سست روی آئے گی وہ یقیناً ایک سال تک کارپوریٹ سیکٹر کی ترقی اور نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے میں رکاوٹ رہے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں