توہین آمیز بیان، بھارتی سپریم کورٹ کا نوپور شرما کو پورے ملک سے معافی مانگنے کا حکم

اپ ڈیٹ 01 جولائ 2022
عدالت نے کہا کہ ملک میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کے لیے یہ خاتون اکیلی ذمے دار ہیں— فوٹو بشکریہ پریس ٹرسٹ آف انڈیا
عدالت نے کہا کہ ملک میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کے لیے یہ خاتون اکیلی ذمے دار ہیں— فوٹو بشکریہ پریس ٹرسٹ آف انڈیا

بھارتی سپریم کورٹ نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سابق ترجمان نوپور شرما کو ملک میں افراتفری اور ہنگامہ آرائی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے پورے ملک سے معافی مانگنے کا حکم دے دیا۔

ٹائمز آف انڈیا کے مطابق نوپور شرما نے سیکیورٹی خدشات اور ان کی جان کو لاحق خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے خلاف مختلف شہروں میں درج ہونے والے مقدمات کو دہلی منتقل کرنے کے لیے بھارتی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی اور انہیں مستقل جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں تاہم بعد میں وہ اپنی درخواست سے دستبردار ہو گئیں۔

مزید پڑھیں: بی جے پی رہنماؤں کے پیغمبر اسلام ﷺ کے متعلق توہین آمیز ریمارکس، مسلم دنیا میں غم و غصے کی لہر

عدالت نے نوپور کی جانب سے توہین آمیز بیان پر معافی پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اب معافی مانگنے میں بہت دیر ہو گئی ہے اور طاقت آپ کے سر پر سوار ہو گئی ہے۔

انہوں نے بی جے پی رہنما کو مزید آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے لوگ مذہبی نہیں ہوتے کیونکہ مذہبی لوگ تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں۔

سینئر ایڈووکیٹ منندر سنگھ نے معذرت خواہانہ انداز میں موقف اپنایا کہ نوپور نے معافی مانگ لی تھی لیکن اعلیٰ عدلیہ نے کہا کہ ایسے لوگوں کا ایک ایجنڈا ہوتا ہے اور ان کا اصل ناپاک مقصد سستی شہرت حاصل کرنا ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ نے توہین آمیز بیان دینے والی خاتون کو ’بدزبان‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی بدزبانی نے پورے ملک میں آگ لگا دی ہے، انہوں نے غیرذمے دارانہ بیانات دیے جو اودے پور جیسے واقعات کی وجہ بنے اور یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ 10سال سے وکالت کررہی ہیں، انہیں پورے ملک سے معافی مانگنی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: بی جی پی یوتھ ونگ کے رہنما مسلم مخالف تبصروں پر گرفتار

این ڈی ٹی وی کے مطابق عدالت نے ملک میں جگہ جگہ جاری احتجاج، فسادات اور پرتشدد واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ جس طرح انہوں نے ملک میں جذبات کو بھڑکایا ہے، تو ملک میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کے لیے یہ خاتون اکیلی ذمے دار ہیں۔

جب نوپور شرما نے عدالت سے استدعا کی کہ دہلی پولیس کی جانب سے درج ایف آئی آر کی تحقیقات کی جائے اور وہ پہلے ہی تفتیش کا حصہ بن چکی ہیں تو عدالت نے ان سے پوچھا کہ ’اب تک اس تفتیش میں کیا ہوا؟، وہاں آپ کے لیے ’ریڈ کارپٹ‘ بچھایا گیا ہو گا۔

عدالت نے کہا کہ ’ان کی درخواست پر ایک شخص کو فوراً گرفتار کر لیا جاتا ہے لیکن ان کے خلاف متعدد ایف آئی آر درج ہونے کے باوجود دہلی پولیس نے انہی ہاتھ تک نہیں لگایا، اس سے آپ کی طاقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے‘۔

جب ان کے وکیل نے کہا کہ ان کے کی موکل کو لاحق سیکیورٹی خطرات کے سبب درخواست میں ان کا نام نہیں لکھا گیا تو عدالت نے ریمارکس دیے کہ انہیں سیکیورٹی خطرات لاحق ہیں یا یہ خود ’سیکیورٹی تھریٹ‘ بن چکی ہیں؟۔

مزید پڑھیں: بھارت: اودے پور میں ہندو درزی کے قتل کے بعد حالات کشیدہ، جزوی کرفیو نافذ

30منٹ تک دلائل سننے کے بعد جسٹس سوریا کانت اور جے بی پردی والا پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے نوپور شرما کی درخواست قبول کرنے سے قبول سے انکار کردیا جس کے باعث ان کے وکیل کو اپنی درخواست سے دستبردار ہونا پڑا۔

عدالت کی جانب سے درخواست مسترد کیے جانے کے بعد بی جے پی رہنما کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے اور اب انہیں مختلف ریاستوں میں درج مقدمات کے سلسلے میں سب کی تفتیش کا حصہ بننا ہو گا۔

بی جے پی کی سابق ترجمان بی جے پی نوپور شرما نے ایک ٹیلی ویژن شو میں بحث کے دوران حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے توہین آمیز بیان دیا تھا جس کے بعد بھارت بھر میں شدید مظاہرے کیے گئے تھے جبکہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمان ممالک نے اس بیان کی شدید مذمت کی تھی۔

اس واقعے کے خلاف بھارت میں ایک ماہ سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور نوپور شرما کے خلاف مختلف بھارتی ریاستوں میں لاتعداد مقدمات بھی درج کرائے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کی بندش اور صحافتی آزادی کی پامالی جاری

بھارت میں گزشتہ دنوں کے دوران کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے نوپور شرما کے توہین آمیز تبصرے کی حمایت میں سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر کچھ دن قبل پوسٹ کرنے والے راجستھان کے درزی کو دو مسلمان نوجوان نے قتل کردیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں