رنگ روڈ انکوائری کمیٹی کی سابق کمشنر کے خلاف تحقیقات کی سفارش

اپ ڈیٹ 06 جولائ 2022
کمیٹی نے رپورٹ میں بے ضابطگیوں کے خلاف ڈٹ جانے والے افسران کی تعریف کی بھی سفارش کی — فائل فوٹو: ڈان
کمیٹی نے رپورٹ میں بے ضابطگیوں کے خلاف ڈٹ جانے والے افسران کی تعریف کی بھی سفارش کی — فائل فوٹو: ڈان

راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے سے متعلق نئی انکوائری رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ منصوبے پر غلط رپورٹ دینے پر سابق کمشنر گلزار حسین شاہ اور پنجاب کے سابق چیف سیکریٹری جواد رفیق ملک کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انکوائری افسر عمر رسول کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق ایسے افسران کو تعریفی اسناد جاری کیے جائیں جنہوں نے اختلاف کیا اور انہیں گلزار حسین شاہ کی ’خفگی‘ کا سامنا کرنا پڑا، ان افسران میں ریٹائرڈ کیپٹن انوار الحق، جہانگیر احمد، عمارہ خان، علی عنان قمر، وسیم علی تابش اور ڈاکٹر فرخ نوید شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے کا ٹھیکا ایف ڈبلیو او کو تفویض

ریکارڈز سے پتا چلتا ہے کہ نیشنل انجینئرنگ سروسز پاکستان (نیسپاک) کی تجویز پر مورت انٹرچینج کی ری ڈیزائننگ تکنیکی بنیادوں پر کی گئی اور صوبائی ترقیاتی ورکنگ پارٹی کو بعد میں اس تبدیلی کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا، ہاؤسنگ سوسائٹیز کے نمائندوں نے اپنے بیانات میں کہا کہ اس تبدیلی میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے۔

دستاویزی شواہد اور تکنیکی ماہرین کے بیانات کی روشنی میں تین صف بندیوں (2017، 2020 اور 2021) کے مختلف پہلوؤں کا تجزیہ کرنے کے لیے ایک موازنہ کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق نام نہاد 2021 کی صف بندی غیر تکنیکی مفروضوں پر مبنی تھی، غلط بیانی اور حقائق کو چھپا کر اس کی منظوری دی گئی۔

سابق کمشنر کے خلاف کارروائی کی سفارش اس بنیاد پر کی گئی ہے کہ انہوں نے 7 مئی 2021 کو ایک غلط رپورٹ پیش کی، رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ سابق کمشنر کی طرف سے پیش کی گئی فیکٹ فائنڈنگ انکوائری رپورٹ ان کے خلاف بعد میں ہونے والی تمام انتظامی اور مجرمانہ کارروائیوں کی بنیاد ہے۔

گلزار حسین شاہ کی تیار کردہ یہ رپورٹ من گھڑت اور غیر قانونی تھی جس کا مقصد ریٹائرڈ کیپٹن محمد محمود کو پھنسانا تھا، یہ اس حقیقت سے عیاں ہے کہ ان پر لگائے گئے الزامات میں سے کوئی بھی حقائق سے ثابت نہیں ہوا اور صرف قیاس آرائیوں پر مبنی ثابت ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے میں شامل زمین سے کوئی تعلق نہیں، غلام سرور

مزید براں گلزار حسین شاہ کی جانب سے 2021 کے 'آر 3' پروجیکٹ کے لیے اپنائے گئے طریقہ کار کی قانونی حیثیت اور منظوریوں کی بھی تکنیکی ماہرین کی ایک ٹیم کے ذریعے اچھی طرح سے چھان بین کی جانی چاہیے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ملک کے خلاف ان کی لاپرواہی، نگرانی اور ایک افسر کے غیر موزوں طرز عمل اور چیف سیکریٹری (پنجاب) کے عہدے پر فائز رہنے کے لائق نہ ہونے پر بھی کارروائی شروع کی جاسکتی ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ جواد رفیق ملک کی لاپرواہی یا تو آسان انداز میں خاموش اختیار کر کے ملی بھگت کی طرف اشارہ کرتی ہے یا آئینی قواعد، ضوابط اور قوانین سے اسٹریٹجک پہلو تہی کی طرف اشارہ کرتی ہے تاکہ گلزار حسین شاہ کو ان کے مذموم عزائم کو جاری رکھنے کے قابل بنایا جا سکے۔

مزید برآں اس میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر فرخ نوید کی فنی مہارت اور بے پناہ تعاون کے باعث ناصرف محکمہ پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ (پنجاب) میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ سیل کے قیام میں بلکہ ان کی انتھک کوششوں کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے مختلف شعبوں میں محکمہ پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ پنجاب کے متعدد منصوبوں کی تشکیل اور ان پر عمل درآمد کے لیے محکمے کا ادارہ جاتی فریم ورک قائم کیا جائے اور انہیں محکمے کے سیل کے سربراہ کے طور پر بحال کیا جائے۔

مزید پڑھیں: 'رنگ روڈ اسکینڈل کے نتیجے میں اربوں روپیہ کھانے سے بچایا گیا'

ماضی کے تمام اختیارات پر غور کرتے ہوئے راولپنڈی رنگ روڈ اقتصادی راہداری منصوبے کے لیے بہترین راستے کا تعین کرنے کے لیے ایک آزاد اور قابل بھروسہ انجینئرنگ کنسلٹنگ ٹیم کے ذریعے تیسرے فریق کی توثیق کی جاسکتی ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ جڑواں شہروں کے مکینوں کو ریلیف کی فراہمی کے لیے ضابطہ اخلاق کو پورا کرنے کے بعد اس منصوبے کو اس کی بہترین شکل پر بحال کیا جانا چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں