مالی سال 2022 میں بینک ایڈوانسز میں 21 فیصد کا نمایاں اضافہ

15 جولائ 2022
یہ ایک اہم تبدیلی ہے اور مالی سال 2023 کے لیے بھی اچھا اثر ڈال سکتی ہے۔— فائل فوٹو:رائٹرز
یہ ایک اہم تبدیلی ہے اور مالی سال 2023 کے لیے بھی اچھا اثر ڈال سکتی ہے۔— فائل فوٹو:رائٹرز

مالی سال 2022 میں بینک ایڈوانسز میں 21 فیصد کا نمایاں اضافہ دیکھا گیا جو 30 جون کو ختم ہونے والے اس سال کے دوران اعلیٰ اقتصادی ترقی کی عکاسی کرتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالی سال 2022 کے اختتام تک کُل ایڈوانسز 10 کھرب 886 ارب روپے تک پہنچ گئیں جو کہ مالی سال 2021 میں 8 کھرب 996 ارب روپے تھی، یہ ایک کھرب 889 ارب روپے یا 21 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔

مالی سال 2022 میں 6 فیصد کی اقتصادی ترقی دیکھنے میں آئی، اس دوران روایتی اور اسلامی دونوں بینکوں کی جانب سے ایڈوانسز میں بہت زیادہ اضافہ نوٹ کیا گیا، نجی شعبے کی ایڈوانسز میں 142.5 فیصد اضافہ ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: بینک ایڈوانسز، ڈپازٹز اور سرمایہ کاری میں اضافہ

روایتی اور اسلامی بینکوں نے مالی سال 2021 میں 595 ارب روپے کے مقابلے میں مالی سال 2022 میں مجموعی طور پر 14 ارب روپے 43 کی ایڈوانسز کیں، یہ ایک اہم تبدیلی ہے اور مالی سال 2023 کے لیے بھی اچھا اثر ڈال سکتی ہے۔

اگرچہ مالی سال 2021 میں بھی تقریباً 6 فیصد کی شرح نمو دیکھی گئی لیکن اس میں بینکوں کی ایڈوانسز مالی سال 2022 کے مقابلے میں بہت کم تھیں۔

بینکرز نے کہا کہ مالی سال 2022 میں زیادہ ایڈوانسز کی جزوی وجہ کاروبار کرنے کی لاگت ہے جس میں معیشت کے تمام شعبوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔

مزید پڑھیں: اکتوبر میں بینک ڈپازٹ میں 20 فیصد اضافہ ہوا، اسٹیٹ بینک

جون میں مہنگائی 21.3 فیصد رہی جو مستقبل کے رجحان کی نشاندہی کرتی ہے اور نجی شعبے کی جانب سے زیادہ قرض لینے کا جواز پیش کرتی ہے۔

مالی سال 2022 میں بینکوں کا ایڈوانس ٹو ڈپازٹ تناسب بڑھ کر 48 فیصد ہو گیا جو ایک سال پہلے 45 فیصد تھا، بینکرز کا خیال ہے کہ یہ معیشت کے لیے ایک اچھی علامت ہے۔

مالی سال 2022 میں بینکوں کی سرمایہ کاری 3 کھرب 677 ارب روپے بڑھ کر 17 کھرب 419 ارب ہو گئی جو کہ 27 فیصد اضافہ ہے، بینکوں نے مالی سال 2021 میں تقریباً 13 کھرب 742 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی۔

یہ بھی پڑھیں: ریکارڈ ترسیلات زر کے باعث بینک ڈپازٹ میں 17.4 فیصد اضافہ

بینکرز کا کہنا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر سرمایہ کاری خطرات سے محفوظ اور زیادہ پیداوار والے سرکاری بانڈز مثلاً ٹریژری بلز اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز میں کی گئی۔

بدھ کو ٹی بلز کی نیلامی سے ظاہر ہوا کہ بینچ مارک کی شرح 15.84 فیصد ہے جو سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے بہت زیادہ ہے جب کہ بینکس کاغذات میں زیادہ سے زیادہ لیکویڈیٹی رکھنے کے خواہشمند ہیں۔

ٹی بلز کی بولی ایک کھرب 500 ارب روپے تھی جبکہ حکومت نے 506 ارب روپے اکٹھے کیے جو بینکوں کے سرمایہ کاری کے رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: اسٹیٹ بینک کا آئندہ دو ماہ کیلئے شرح سود 7 فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان

مالی سال 2022 میں بینکوں کے ڈپازٹس پچھلے سال کے 19 کھرب 796 ارب روپے سے 15 فیصد بڑھ کر 22 کھرب 81 ارب ہو گئے جو کہ اب تک کی بلند ترین سطح ہے، رقم کے لحاظ سے ایک سال میں ڈپازٹس میں 3 کھرب 14 روپے کا اضافہ ہوا۔

بینکرز کا خیال ہے کہ اس اضافے کی کئی وجوہات ہیں جن میں ریکارڈ ترسیلات زر، شرح سود میں اضافہ جو کہ اب 15 فیصد پر ہے اور اوپن مارکیٹ سے ڈالر خریدنے پر سخت پابندیاں شامل ہیں۔

عام لوگ روایتی طور پر بچت کے لیے ڈالر خریدتے تھے لیکن حکومت نے ایکسچینج کمپنیوں سے ڈالر خریدنا عملی طور پر ناممکن بنا دیا، اب ڈالر خریدنے کے لیے بہت ساری دستاویزات درکار ہوتی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں