بیجینگ کے فاربیڈن سٹی کا میریدئن گیٹ— وکی میڈیا کامنز
بیجینگ کے فاربیڈن سٹی کا میریدئن گیٹ— وکی میڈیا کامنز

رواں ہفتے ٹیلی ویژن سیٹس اور اسمارٹ فون اسکرینز پر سری لنکا کے مناظر دیکھنے کو ملے جن میں مظاہرین کولمبو میں سری لنکا کے صدر کی سرکاری رہائش گاہ ’ٹیمپل ٹریز‘ میں ہنگامہ آرائی کررہے تھے۔

ہم نے کمیرے کی آنکھ سے دیکھا کہ عمارت کے سبزہ زار میں موجود سوئمنگ پول میں بھی نوجوان مظاہرین موج مستیاں کررہے ہیں۔

سینڈل، شارٹس اور ٹی شرٹ میں ملبوس لوگ عمارت کے پُرتعیش رہائشی حصے بشمول بیڈروم میں گھوم پھر رہے تھے جہاں کچھ دنوں پہلے تک سابق صدر گوٹابایا راجا پاکسا سورہے ہوتے تھے، لیکن اب صورتحال بالکل بدل چکی تھی۔

کسی مؤرخ کے لیے سری لنکا میں مظاہرین کا محل کے سوئمنگ پول میں نہانے کا منظر نیا نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا منظر بھی ہے جو کسی بڑی سیاسی تبدیلی کا اشارہ بھی دیتا ہے۔ سری لنکا کا ٹیمپل ٹری بھی شاہی اور صدارتی رہائش گاہوں کی اس طویل فہرست میں شامل ہوگیا ہے جن پر سیاسی بغاوتوں اور انقلابات کے دوران مظاہرین کا قبضہ رہا۔

طاقت اور اختیار کی علامت

وراسائے میں خواتین کا مارچ— مصور، نامعلوم،1789ء
وراسائے میں خواتین کا مارچ— مصور، نامعلوم،1789ء

قومی ریاستوں میں بادشاہوں اور صدور کی رہائش گاہیں طاقت اور اختیار کی ایک اہم علامت ہوتی ہیں۔ یہ عمارتیں طرزِ تعمیر کے اعتبار سے بھی بہت شاندار ہوتی ہیں۔ ان پر جو ضرورت سے زیادہ دولت لگائی جاتی ہے وہ دراصل اس میں رہنے والے رہنما کی طاقت کا اظہار ہوتی ہے۔ ان کی طاقت ان عمارتوں کے مہنگے فرنیچر اور دیواروں پر لٹکتے بیش قیمت فن پاروں سے متعلق ہی ہوتی ہے۔

ان عمارتوں تک رسائی کو بہت سختی کے ساتھ کنٹرول کیا جاتا ہے اور اس کی وجہ ان کی خصوصی اور تقریباً مقدس حیثیت ہوتی ہے۔ یہ دراصل ان منتخب یا غیر منتخب حکمرانوں کے اختیار کو ظاہر کرتی ہے جو ان کے اندر رہائش پذیر ہوتے ہیں۔

سری لنکا 1972ء میں جمہوریہ بننے سے قبل برطانیہ کی نوآبادی تھا۔ اس وقت ٹیمپل ٹریز کو کنگز ہاؤس یا کوئینز ہاؤس کہا جاتا تھا۔ یہ برطانوی گورنروں کی رہائش گاہ بنا رہا اور بعد میں ان کی جگہ صدور نے لے لی۔

صدر کا سوئمنگ پول اور رہائش ایسی جگہ ہے جہاں صرف مخصوص لوگوں کو جانے کی ہی اجازت ہوتی ہے۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں غریب سری لنکن شہری نہیں جاسکتے۔

صدارتی سوئمنگ پول میں نہانا ایک طرح سے اجتماعی طور پر بغاوت کا اظہار تھا کہ وہ تمام قوانین اور پولیسنگ جس نے غصے میں بھرے مظاہرین کو محل سے باہر رکھا ہوا تھا وہ قوانین اب مؤثر نہیں رہے۔

مظاہرین میں شامل شخص سری لنکن وزیرِاعظم کی رہائش گاہ کے سبزہ زار میں گھوم رہا ہے— رائٹرز
مظاہرین میں شامل شخص سری لنکن وزیرِاعظم کی رہائش گاہ کے سبزہ زار میں گھوم رہا ہے— رائٹرز

کئی عوامل اس محل پر قبضے کی وجہ بنے۔ وہاں قومی حکومت اور بہت سے لوگ دیوالیہ ہوچکے ہیں۔ اشیائے خور و نوش اور پیٹرول کی شدید قلت نے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے۔ لوگ کام نہیں کرسکتے اور اپنے بچوں کا پیٹ نہیں پال سکتے۔

اس بحران کے ردِعمل میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے فوری تبدیلی کا مطالبہ کیا۔

مظاہرین نے صدر کے استعفے تک محل خالی نہ کرنے کا اعلان کیا اور بلآخر صدر گوٹابایا راجا پاکسا نے 13 جولائی 2022ء کو اعلان کیا کہ وہ استعفیٰ دے رہے ہیں اور پھر وہ ملک سے فرار ہوگئے۔

تاریخی مثالیں

میکسیکو میں وائسرائے کے محل کی تصویر جس میں جلا ہوا حصہ نظر آرہا ہے
میکسیکو میں وائسرائے کے محل کی تصویر جس میں جلا ہوا حصہ نظر آرہا ہے

عالمی مثالیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ کس طرح محلات پر قبضوں کے ساتھ عالمی تاریخ میں بڑی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی ہیں۔

نوآبادیاتی میکسیکو میں ہسپانوی وائسرائے بھی ایک عالی شان محل میں رہتا تھا۔ وہ محل میکسیکو سٹی کے سینٹرل پلازہ کے کنارے پر ایک کتھیڈرل کے ساتھ واقع تھا۔ اسے قدیم ایزٹیک ٹیمپلو میئر کے کھنڈرات کے اوپر تعمیر کیا گیا تھا۔

جب 1692ء میں کثیر النسلی محنت کش طبقے نے حکومت کے خلاف بغاوت کی تو ہجوم نے زبردستی محل کے ممنوعہ کمروں میں گھس کر عمارت کو آگ لگا دی۔ مصور کرسٹوبل ڈی ولالپانڈو کی 1695ء کی پینٹنگ میں محل کے جلے ہوئے حصے کو دکھایا گیا ہے۔

وائسرائے کا محل بعد میں میکسیکو کی تاریخ میں مرکزی کردار ادا کرتا رہا۔ 1810ء کی دہائی میں آزادی کے لیے کی جانے والی جنگ میں میکسیکو کے شہریوں نے دوبارہ ہسپانویوں کے خلاف بغاوت کی جس کے بعد نئی قومی حکومت نے میکسیکو کے نئے صدر کو محل میں بٹھا دیا۔

1930ء کی دہائی میں حکومت نے اس کی مرکزی سیڑھیوں پر ایک میورل پینٹ کرنے کے لیے ڈیئگو رویرا کی خدمات حاصل کیں۔ یہ میورل نوآبادیاتی حکومت کے خلاف طویل عوامی جدوجہد کو بیان کرتا ہے اور یوں یہ محل اب نو آبادیات مخالف یادگار بن گیا ہے۔

مظاہرین میں شامل ایک شخص سری لنکا کے صدارتی محل کے سوئمنگ پول میں نہا رہا ہے— رائٹرز
مظاہرین میں شامل ایک شخص سری لنکا کے صدارتی محل کے سوئمنگ پول میں نہا رہا ہے— رائٹرز

یورپ میں ورسائے کا شاہی محل انقلابِ فرانس میں ڈرامائی واقعات کا مرکز رہا۔ 18ویں صدی کے آخر میں جب فرانس مالی بحران میں ڈوبا ہوا تھا تو ایک ایسے وقت میں جب زیادہ تر آبادی انتہائی غربت کا شکار تھی، یہ محل شاہی عیش و عشرت کی علامت بن گیا تھا۔

5 اکتوبر 1789ء میں پیرس میں روٹی کی قیمت میں اضافے کے خلاف ہنگامے ہوئے جو بہت بڑے مظاہرے میں تبدیل ہوگئے۔ اس ہجوم جس میں زیادہ تر خواتین تھیں نے شہر کے اسلحہ خانے سے ہتھیار قبضے میں لے کر محل کی جانب بڑھنا شروع کردیا اور زبردستی محل میں داخل ہوکر بادشاہ لوئس شانزدھم سے ملاقات کا مطالبہ کیا۔ وہ اگلے دن شاہی خاندان کو اپنے ساتھ پیرس لے کر گئے۔

1793ء میں بادشاہ کو پھانسی دینے کے بعد، محل کی دولت کو یا تو لوور بھیج دیا گیا یا پھر نیلام کردیا گیا۔

20ویں صدی کے انقلابات میں بھی محلات نمایاں تھے۔ 1917ء میں سینٹ پیٹرزبرگ میں زارِ روس کے سرمائی محل پر بالشویکوں کا قبضہ 7 دہائیوں پر مشتمل کمیونسٹ حکمرانی کا نقطہ آغاز تھا۔

نئی کمیونسٹ حکومت نے اس تقریب کو اس قدر اہم سمجھا کہ انہوں نے 1920ء میں محل پر ہونے والے حملے کی ایک شاندار ری ایکٹمنٹ کا مظاہرہ کیا۔ اس تقریب میں سابق شاہی بیلے کی پوری کاسٹ سمیت ڈھائی ہزار سے زیادہ اداکاروں نے شرکت کی اور اسے دیکھنے کے لیے ایک لاکھ سے زائد لوگ آئے۔

اس محل کو ہیریٹیج میوزیم کا درجہ دیا گیا جہاں قومیائے گئے شاہی فن پاروں کو عوامی نمائش کے لیے رکھا گیا۔ ریاست نے اپنی کمیونسٹ اقدار کی نشاندہی کرتے ہوئے اس جگہ کو علامتی طور پر جمہوری بنایا۔

بیجینگ میں واقع فاربڈن سٹی دنیا کا سب سے بڑا محل ہے۔ 15ویں صدی میں تعمیر کیے گئے اس محل میں منگ اور کنگ خاندان آباد رہے ہیں۔ 1949ء میں ماوزے تنگ نے اس محل کو چینی خانہ جنگی میں کمیونسٹ فتح کے جشن کے لیے منتخب کیا تھا۔

ماوزے تنگ کی تصویر اب بھی گیٹس آف ہیونلی پیس کے اوپر ٹنگی ہے، یہ وہی مقام ہے جہاں انہوں نے عوامی جمہوریہ چین کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ تیانمن اسکوائر کے پس منظر میں بھی یہی محل موجود تھا۔ یہ بات اس محل کو ایک ایسا مقام بنا دیتی ہے کہ جہاں قومی سیاست کھیلی جاتی ہے۔

ماضی کی یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ سری لنکا کی موجودہ بدامنی اور اس کے مستقبل میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ٹیمپل ٹریز کی قسمت پر نظر رکھنا بہتر ہوگا۔ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں اس عمارت کا تخلیقی استعمال اور اس کی تشکیلِ نو ملک کی ابھرتی ہوئی سیاست پر روشنی ڈال سکتی ہے۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر دی کنورسیشن اور بعد ازاں ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں