عدالت کا دعا زہرہ کو یکم اگست کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 23 جولائ 2022
عدالت نے زہرہ کو یکم اگست کو کسی ناکامی کے بغیر چائلڈ پروٹیکشن آفیسر کے ہمراہ پیش کرنے کا حکم دیا— فائل فوٹو: سوشل میڈیا
عدالت نے زہرہ کو یکم اگست کو کسی ناکامی کے بغیر چائلڈ پروٹیکشن آفیسر کے ہمراہ پیش کرنے کا حکم دیا— فائل فوٹو: سوشل میڈیا

کراچی کی مقامی عدالت نے تفتیشی افسر کو ہدایت کی ہے کہ نوعمر دعا زہرہ کو دارالامان لاہور سے عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 19 جولائی کو لاہور کے ایک جوڈیشل مجسٹریٹ نے نوعمر لڑکی کو ان کی درخواست پر شیلٹر ہوم بھیج دیا تھا کیونکہ تازہ تحقیقات میں انکشاف ہوا تھا کہ ظہیر احمد نے اسے مبینہ طور پر کراچی سے اغوا کیا تھا اور بعد میں پنجاب میں اس کے ساتھ غیرقانونی طور پر کم عمری میں شادی کی تھی۔

مزید پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ کا دعا زہرہ کو لاہور سے کراچی منتقل کرنے کا حکم

جس کے بعد لڑکی کی والدہ صائمہ کاظمی نے جوڈیشل مجسٹریٹ (شرقی) آفتاب احمد بگھیو کے سامنے ایک درخواست دائر کی جس میں استدعا کی گئی کہ وہ پولیس کو حکم دے کہ وہ لاہور کے شیلٹر ہوم سے ان کی نابالغ بیٹی کو بازیاب کرائے اور کسی بھی چائلڈ پروٹیکشن انسٹی ٹیوٹ کی حفاظت میں رکھے۔

درخواست منظور کرتے ہوئے جج نے تفتیشی افسر کو ہدایت کی کہ وہ لڑکی کو یکم اگست کو چائلڈ پروٹیکشن آفیسر کے ہمراہ پیش کریں۔

تفتیشی افسر کو یہ بھی کہا گیا کہ وہ اگلی تاریخ کو حتمی چارج شیٹ جمع کرائے تا کہ مبینہ اغوا اور کم عمری کی شادی سے متعلق معاملے کو اسی کے مطابق آگے بڑھایا جا سکے۔

میں کہا گیا کہ یہ بہت واضح ہے کہ اس معاملے میں جب لڑکی کے فائدے میں کام کرنے والا کوئی بھی شخص خفیہ معلومات لاتا ہے کہ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کے حوالے سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے، تو عدالت کو اس کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس کی پیشی کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: ‘دعا زہرہ کی عمر15 سے 16 سال ہے’، میڈیکل بورڈ کی رپورٹ عدالت میں جمع

مجسٹریٹ نے ذکر کیا کہ سندھ ہائی کورٹ نے اس سلسلے میں تفتیشی افسر کو واضح طور پر متاثرہ/گواہ کو لاہور سے کراچی منتقل کرنے اور نابالغ/متاثرہ کی تحویل اور تحفظ کے حوالے سے مزید احکامات کے لیے عدالت میں پیش کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔

دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ نے ظہیر احمد اور ان کے بھائی کی جانب سے تحفظ اور ان کے بینک اکاؤنٹس کو غیرمنجمد کرنے کی درخواستوں پر وفاقی سیکریٹری داخلہ اور خزانہ، صوبائی سیکریٹری داخلہ، پولیس اور دیگر مدعا علیہان کو نوٹس جاری کردیے۔

دعا زہرہ کے مبینہ شوہر ظہیر احمد نے اپنے وکیل کے ذریعے سندھ ہائی کورٹ کو درخواست دی تھی کہ اس نے 17 اپریل کو دعا کے ساتھ اپنی مرضی سے شادی کی تھی لیکن حال ہی میں والد سید مہدی علی کاظمی کے ایک ضمنی بیان میں انہیں ملزم نامزد کیا گیا تھا کیونکہ ان کی بیٹی نے اپنے والدین کی رضامندی کے بغیر شادی کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ مہدی کاظمی اور ان کے رشتہ داروں نے شدید رنجش اور دشمنی پیدا کر رکھی تھی اور شادی کو توڑنے کی کوشش کررہے ہیں، دعا نے اپنی مرضی سے شادی کے بارے میں عدالتوں اور پولیس کے سامنے کئی بیانات دیے ہیں اور اپنی جان کو لاحق خطرے کی وجہ سے کراچی جانے سے بھی انکار کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پولیس کا دعا زہرہ کے مبینہ اغوا کے وقت ظہیر احمد کی کراچی میں موجودگی کا دعویٰ

انہوں نے الزام لگایا کہ مقدمے کی دوبارہ تفتیش کے دوران پولیس نے درخواست گزار کے خلاف سیاسی اور فرقہ وارانہ اثر و رسوخ کی وجہ سے مقدمہ درج کیا کیونکہ درخواست گزار اور شکایت کنندہ کا تعلق دو مختلف فرقوں سے ہے۔

وکیل نے مزید کہا کہ پولیس درخواست گزار کی گرفتاری پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے اور مقامی سیاسی مداخلت پر اسے جعلی مقابلے میں مارنے پر بضد ہے جبکہ درخواست گزار متعلقہ عدالت میں مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے۔

درخواست گزار نے مدعا علیہان کو ہدایت کی کہ وہ اسے غیر قانونی طور پر گرفتار نہ کریں کیونکہ وہ عبوری ضمانت پر رہا ہے اور اسے کیس کے شکایت گزار سے تحفظ اور تحفظ فراہم کیا جائے۔

ابتدائی سماعت کے بعد جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے مدعا علیہان کے ساتھ ساتھ وفاقی اور صوبائی لا افسران کو 29 جولائی کے لیے نوٹس جاری کر دیے۔

تبصرے (0) بند ہیں