کراچی میں صوبائی انسداد کرپشن عدالت نے مبینہ طور پر جعلسازی کے ذریعے ایک کروڑ 60 لاکھ روپے کی سرکاری زمین لیز پر حاصل کرنے کے مقدمے میں گرفتار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

صوبائی انسداد کرپشن کے خصوصی جج نوشابہ قاضی نے فیصلہ دیا کہ ان حالات میں، ملزم حلیم عادل شیخ کو 63 سی آر پی سی کے تحت بری کر دیا جاتا ہے، کیونکہ ان کے خلاف مبینہ جرائم میں ملوث ہونے کے لیے ریکارڈ پر کافی مواد موجود نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی رہنما حلیم عادل شیخ جامشورو سے گرفتار

عدالت نے تفتیشی افسر کو حکم دیا کہ اگر ملزم کسی اور مقدمے میں نامزد نہیں تو 50 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض انہیں فوری طور پر رہا کر دیں۔

تفتیشی افسر عبدالوہاب طالبانی نے مزید پوچھ گچھ کے لیے 14 دن کا جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے حلیم عادل شیخ کو عدالت کے سامنے پیش کیا تھا۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ گزشتہ روز گرفتار کرکے کراچی منتقل ہونے تک حلیم عادل سے کوئی تفتیش نہیں کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ تفتیش نامکمل ہے اور شریک ملزمان کو گرفتار کرنا باقی ہے جبکہ زمینوں کی خریداری اور ان کی جانب سے حاصل کیے گئے بینک قرض سے متعلق کچھ متعلقہ ریکارڈ ان کی نشان دہی پر محفوظ کیا جانا تھا۔

تفتیشی افسر کے دلائل کی تائید کرتے ہوئے سرکاری وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ اس معاملے میں انکوائری مکمل ہو چکی ہے مگر تفتیش نہیں ہو سکی لہٰذا مزید تفتیش کے لیے ملزم کا جسمانی ریمانڈ درکار ہے۔

یہ بھی پڑھیں:اینٹی کرپشن یونٹ نے پی ٹی آئی رہنما حلیم عادل شیخ کو تحویل میں لے لیا

تاہم معزز جج نے لکھا کہ اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ اینٹی کرپشن پولیس نجی افراد کے حقوق کے ریکارڈ میں کی گئی کسی بھی اندراج پر پوچھ گچھ نہیں کر سکتی اور سندھ ہائی کورٹ نے 2015 کے ایک فیصلے میں اینٹی کرپشن پولیس کو ہدایت کی تھی کہ وہ نجی افراد سے تعلق رکھنے والے ریونیو ریکارڈ میں کسی بھی انٹری کے حوالے سے شکایات پر توجہ دینے سے گریز کرے۔

عدالت نے نشان دہی کی کہ سپریم کورٹ نے اپنے 2004 کے فیصلے میں یہ کہا تھا کہ اس حقیقت کے بارے میں کہ آیا تنازع میں تبدیلیوں کو دھوکا دہی سے داخل کیا گیا تھا یا نہیں، اس کا تعین ابھی تک سول عدالت نے ملزم کی طرف سے دائر سول مقدمہ میں نہیں کیا تھا جو کہ زیر التوا تھا اور فوجداری عدالت کے دائرے میں مداخلت کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔

انہوں نے نشان دہی کی کہ موجودہ ایف آئی آر میں تفتیشی افسر نے الزام عائد کیا تھا کہ ملزمان نے ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے عہدیداروں کی ملی بھگت سے ریکارڈ میں دھوکا دہی سے اندراج کیا تھا لیکن چونکہ ملزم پرائیویٹ شخص ہونے کی وجہ سے مستفید تھا، ریاست کا قانون نہیں کہ وہ موجودہ عدالت سے رجوع کرے بلکہ اس طرح کے داخلے کی منسوخی کے لیے سول عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: حلیم عادل شیخ کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کیلئے سندھ اسمبلی میں درخواست جمع

جج نے مزید کہا کہ ملزم پہلے ہی سندھ ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کر چکا ہے جس میں انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ مورخہ یکم اکتوبر 2008 کو ایک خط کے ذریعے اپنے حق میں دی گئی لیز گرانٹ کو 30 سال سے 99 سال میں تبدیل کرنے کے لیے درخواست دی تھی، لیکن اس پر کوئی جواب نہیں ملا تھا۔

جج نے مزید کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے 2 جنوری 2019 کو بھی ملزم کے حق میں اسٹیٹس کو کا حکم دیا تھا لہٰذا سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے یہ طے کرنا باقی ہے کہ آیا حلیم عادل شیخ کا ملکیت پر حق ہے یا نہیں۔

خیال رہے قائد حزب اختلاف سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ کو گزشتہ روز اینٹی کرپشن دفتر میں پیش ہونے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا جس کو تحریک انصاف نے سیاسی گرفتاری قرار دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں