مسلم لیگ (ق) کا چوہدری شجاعت، طارق بشیر چیمہ کو عہدوں سے برطرف کرنے کا فیصلہ

29 جولائ 2022
چوہدری شجاعت نے چوہدری پرویز الٰہی کو ووٹ نہ دینے کے لیے خط لکھا تھا—فائل فوٹو:ڈان نیوز،ٹوئٹر
چوہدری شجاعت نے چوہدری پرویز الٰہی کو ووٹ نہ دینے کے لیے خط لکھا تھا—فائل فوٹو:ڈان نیوز،ٹوئٹر

مسلم لیگ (ق) کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیاہے کہ پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کو پارٹی کے عہدوں سے ہٹایا جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کہ چوہدری شجاعت حسین نے چند روز قبل بطور پارٹی سربراہ پنجاب میں مسلم لیگ (ق) کے اراکین اسمبلی کو حال ہی میں ہونے والے وزیراعلیٰ کے انتخاب میں اپنے کزن چوہدری پرویز الٰہی کو ووٹ نہ دینے کے لیے خط لکھا تھا۔

سینٹرل ورکنگ کمیٹی نے دعویٰ کیا کہ مسلم لیگ (ق) کے سربراہ اپنی خراب صحت کے باعث پارٹی کے لیے دانش مندانہ فیصلے کرنے سے قاصر ہیں اور طارق بشیر چیمہ پارٹی کے خلاف سازش کر رہے ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کے لیے پارٹی کو استعمال کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب اسمبلی: اسپیکر کے انتخاب، ڈپٹی اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد

سینیٹر کامل علی آغا کی زیر صدارت مسلم لیگ (ق) کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 10 روز کے اندر پارٹی عہدوں کے لیے نئے انتخابات کرائے جائیں گے۔

اجلاس کے دوران 5 رکنی الیکشن کمیشن تشکیل دیا گیا اور پارٹی لائرز ونگ کے قائم مقام صدر جہانگیر اے جھوجا کو الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا۔

سینٹرل ورکنگ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ جہانگیر اے جھوجا انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد تک پارٹی کے تنظیمی اور انتظامی امور کی بھی نگرانی کریں گے۔

چوہدری شجاعت حسین کے اس خط کا حوالہ دیتے ہوئے جس میں پارٹی کے ایم پی ایز کو مسلم لیگ (ن) کے امیدوار حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کی ہدایت کی گئی تھی، سینیٹر کامل علی آغا نے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ پارٹی کو نقصان پہنچانے کی تمام حدیں پار کر دی گئی ہیں۔

مزید پڑھیں: پنجاب اسمبلی میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے عہدوں کیلئے رسہ کشی

انہوں نے کہا کہ خط کے معاملے کے بعد کیا چوہدری شجاعت حسین کو پارٹی صدر اور طارق بشیر چیمہ کو سیکریٹری جنرل رکھنے کا کوئی جواز باقی رہ جاتا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ اگر اس طرح کے خط کا معاملہ سامنے آسکتا ہے تو پھر یہ بھی ہو سکتا ہے۔

سینیٹر کامل علی آغا نے مزید کہا کہ پارٹی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کا اجلاس اس وقت بلایا گیا جب کہ اس کے دو تہائی ارکان نے شجاعت کی خراب صحت پارٹی پر اثر انداز ہونے کے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔

اس حوالے سے مزید بات چیت کے لیے رابطہ کرنے پر سینیٹر کامل علی آغا نے ڈان کو بتایا کہ سینٹرل ورکنگ کمیٹی پارٹی کی اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی ہے جس نے اختیارات صدر، سیکریٹری جنرل اور دیگر عہدیداروں کو سونپے، اس لیے کمیٹی کو اکثریتی ووٹ کے ساتھ کسی بھی عہدیدار کو عہدے سے ہٹانے کا اختیار بھی حاصل ہے۔

چوہدری شجاعت حسین کو گزشتہ سال فروری میں منعقد ہونے والے انٹرا پارٹی انتخابات میں 4 سال کی مدت کے لیے پارٹی کا صدر منتخب کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ مسترد، چوہدری پرویز الہٰی وزیر اعلیٰ پنجاب قرار

ان کا کہنا تھا کہ دونوں سینئر عہدیداروں کو شو کاز نوٹس جاری کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ سیںٹرل ورکنگ کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست 42 ارکان نے کی تھی جب کہ اس کا کم از کم کورم 40 ارکان پر مشتمل ہوتا ہے۔

انہوں نے مزیدبتایا کہ کل 150 میں سے 83 ارکان نے اجلاس میں شرکت کی اور پارٹی صدر چوہدری شجاعت حسین اور سیکریٹری جنرل طارق بشیر چیمہ کی برطرفی سمیت تمام قراردادیں منظور کیں۔

سینیٹر کامل علی آغا نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کے ارکان نے پہلے سیکریٹری جنرل سے سی ڈبلیو سی کا بلانے کو کہا تھا اور ان کے انکار پر پارٹی کا سینئر رکن ہونے کے ناطے مجھے اجلاس بلانے کو کہا گیا۔

مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخاب: چوہدری شجاعت، جے یو آئی، پیپلز پارٹی کی کیس میں فریق بننے کی درخواست

سیکریٹری جنرل طارق بشیر چیمہ نے نہ تو وٹس ایپ پیغامات کا جواب دیا اور نہ ہی کالز کا جواب دیا۔

دوسری جانب، اسلام آباد سے پارٹی کے ترجمان کے جاری کردہ ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ پارٹی کی سی ڈبلیو سی میٹنگ بلانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

مسلم لیگ (ق) کے ترجمان نے بیان میں مزید کہا کہ سینیٹر کامل علی آغا پارٹی کے پنجاب چیپٹر کے جنرل سیکریٹری ہیں، اس لیے وہ پارٹی صدر کے خلاف کوئی فیصلہ لینے کا اختیار نہیں رکھتے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں