پی ایس او کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے مزید 30 ارب روپے کے ٹیکس لگانے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 01 اگست 2022
وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کی زیر صدارت ای سی سی کا اجلاس ہوا—فوٹو:پی آئی ڈی
وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کی زیر صدارت ای سی سی کا اجلاس ہوا—فوٹو:پی آئی ڈی

تیل اور گیس کی ادائیگیوں سے متعلق عالمی دیوالیہ پن سے بچنے اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے کو برقرار رکھنے کے لیے 100 ارب روپے کی ایمرجنسی فنڈنگ کا انتظام کرنے کی کوششوں کے دوران حکومت نے عوام پر مزید 30 ارب روپے کے اضافی ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کی زیر صدارت کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے خصوصی اجلاس میں کیا گیا۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ 153 ارب روپے پرائمری بجٹ سرپلس سے متعلق آئی ایم ایف کے ساتھ کیا گیا اضافی بجٹ کا وعدہ مزید ٹیکس عائد کیے بغیر پورا نہیں کیا جا سکتا۔

یہ بھی پڑھیں: لگژری اشیا کی درآمد پر عائد پابندی میں نرمی کردی گئی

ای سی سی نے پیٹولیم مصنوعات کی قیمتوں کی غیر یقینی صورتحال کو کم کرنے کے لیے موجودہ 15 روزہ تعین کے بجائے ہفتہ وار یا 10 روزہ بنیاد پر قیمتوں کی ایڈجسٹمنٹ کرنے کا جائزہ لینے کا بھی فیصلہ کیا۔

اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیے کے مطابق ای سی سی نے فنانس ڈویژن اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو ہدایت ایک ہفتے کے اندر ٹیکس کے ذریعے مزید 30 ارب روپے حاصل کرنے کی تجاویز پیش کرنے کی ہدایت دی۔

اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 28 اگست تک تقریباً 270 ارب روپے کی عالمی ادائیگیوں کے پابند محکمے پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کو فوری ادائیگی کے لیے 30 ارب روپے کی ضمنی بجٹ گرانٹ کی بھی منظوری دی۔

اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تیل اور گیس کی قومی سپلائی چین کے بلا تعطل تسلسل کو برقرار رکھنے اور پی ایس او کو عالمی سطح کی ادائیگیوں سے متعلق دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے ای سی سی نے سابقہ حکومت کی بقایا ادائیگیوں کو کلیئر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کمیٹی نے پاور ڈویژن کو 24 گھنٹے کے اندر 20 ارب روپے کی موجودہ بقایا رقم کی فوری ادائیگی اور 4 اگست بروز جمعرات تک مزید 12 ارب 8 کروڑ روپے کی ادائیگی کرنے کی بھی ہدایت کی۔

مزید پڑھیں: کے الیکٹرک، آئی پی پیز کے لیے 133 ارب روپے کی منظوری

پیٹرولیم ڈویژن کے ذرائع نے بتایا کہ 28 جولائی کو پی ایس او کی قابل وصول رقم 608 ارب روپے تک پہنچ گئی تھی جس میں صرف سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کی جانب سے وصول کیے جانے والے 340 ارب روپے شامل تھے۔

ایل این جی کی سپلائی ایک اہم عنصر تھا جو یکم جولائی 2021 سے اب تک 213 ارب روپے کی کمی کا باعث بنی۔

دوسری جانب، (ایس این جی پی ایل کو سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) کی جانب سے ادائیگیوں کی تاخیر کا سامنا ہے جب کہ یکم جنوری 2022 سے اب تک کمپنی کی قابل وصول رقم 43 ارب روپے سے بڑھ کر 113 ارب روپے ہو گئیں ہیں۔

اسی طرح سے سی پی پی اے کی جانب سے پی ایس او کو ایندھن کی سپلائی کی مد میں مزید 182 ارب روپے ادا کیے جانے ہیں، اس رقم میں 1 جولائی 2022 سے جمع ہونے والے 16 ارب روپے بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: انتظامی معاملات کو ٹھیک کرنا ہوگا ورنہ معیشت نہیں سنبھلے گی، مفتاح اسمٰعیل

سیکریٹری پیٹرولیم نے درخواست کی کہ پی ایس او عالمی ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے ایس او ایس کالز بڑھا رہا ہے جب کہ متعلقہ اداروں کی جانب سے ادائیگیوں میں تاخیر کے باعث اس کی لیکویڈیٹی ختم ہوگئی ہے، اس صورتحال کے نتیجے میں پی ایس او کویت پیٹرولیم کوآپریشن (کے پی سی) کو ترسیل کے لیے معاہدے کے مطابق 81 ارب روپے ادا نہیں کرسکی۔

مزید یہ کہ پی ایس او معاہدے کے مطابق حکومت کو 16 ارب روپے جمع نہیں کروا سکا تھا جب کہ ان ادائیگیوں کو پی ایس او کو عالمی معاہدوں کی خلاف ورزیوں سے بچانے کے لیے موخر کر دیا گیا۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ ان مشکلات کے باوجود پی ایس او نے جولائی 2022 میں معاہدے کے مطابق عالمی ادائیگیوں کو پورا کیا تھا لیکن اگست میں ایسا ممکن نہیں ہو گا جس کے نتیجے میں سپلائی چین میں خلل آئے گا۔

پی ایس او کو اگست 2022 کے ابتدائل 15 روز میں میں 267 ارب روپے کی عالمی ادائیگی کرنی ہے جب کہ اگست کے ابتدائی 15 روز کے دوران 157 ارب روپے کی وصولی متوقع ہے جب کہ ادائیگی اور آمدن کے درمیان 100 ارب روپے کا فرق ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Asim saeed Aug 02, 2022 07:10am
How they can tax nation to save a listed company on stock exchange with private shareholders , it’s robbery. They mustn’t be allowed to tax people to save private firms for their inefficiency