سینیٹ اجلاس: ججوں کے تقرر سے متعلق آئینی ترمیم کا بل کمیٹی کے سپرد

اپ ڈیٹ 02 اگست 2022
ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پر ملک میں تنقید ہو رہی ہے— فوٹو: ڈان نیوز
ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پر ملک میں تنقید ہو رہی ہے— فوٹو: ڈان نیوز

اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقرر سے متعلق آرٹیکل 175 میں آئینی ترمیم کا بل سینیٹ کی کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے آئین کے آرٹیکل 142 اور 175 اے میں ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بل پاکستان کی عدلیہ سے متعلق ہے، فیملی قانون پورے ملک میں یکساں ہونا چاہیے، پارلیمان کو صرف اسلام آباد نہیں پورے پاکستان تک اختیارات ہونے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 175 اے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں سے متعلق ہے، اٹھارویں ترمیم کےبعد یہ سارے اختیارات جوڈیشل کمیشن کے پاس چلے گئے، جس کی توثیق پارلیمانی کمیٹی کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ اجلاس: ‘ٹی ٹی پی سے مذاکرات پر حکومت، وزیردفاع ایوان کو اعتماد میں لیں’

ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پر ملک میں تنقید ہو رہی ہے، جوڈیشل کمیشن میں 9 جج ہیں، چیف جسٹس، چار سپریم کورٹ کے جج اور ایک ریٹائرڈ جج شامل ہیں جبکہ صرف 3 ممبران وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل آف پاکستان اور بار کی نمائندگی کرنے والے سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ شامل ہیں۔

'جوڈیشل کمیشن میں سپریم کورٹ کے 4 کے بجائے 3 جج ہونے چاہئیں'

فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ اس طرح کمیشن کا جھکاؤ ججوں کی طرف ہو جاتا ہے، 3 اراکین کی آواز دب جاتی ہے، جوڈیشل کمیشن میں سپریم کورٹ کے 4 کے بجائے 3 جج ہونے چاہئیں، ریٹائرڈ جج کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت 13 افراد ہائی کورٹ کے ججوں کو منتخب کرتے ہیں، ان کی تعداد 11 کرنے کی تجویز دی ہے جبکہ آئین خاموش ہے کہ کون سے ایڈوکیٹ نامزد کیےجائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک کمیٹی تشکیل دی جائے اور جیسے ہی جگہ خالی ہو یہ کمیٹی 60 دن میں نامزدگی بھجوائے، اس وقت چاروں ہائی کورٹس میں آسامیاں خالی ہیں لیکن ججوں کا تقرر نہیں کیا جارہا، یہ کمیٹی نامزد کرے گی کہ یہ وکیل لائق ہیں اور میرٹ پر پورا اترتے ہیں، عدلیہ کے اپنے اختلافات سامنے آنا ان کے اپنے لیے اچھا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج کے لیے بار کونسل کہتی ہیں کہ سینئر جج کو لیا جائے، وہ کہتے ہیں جج فٹ نہیں ہے، بھئی اگر جج فٹ نہیں تو اس سے چیف جسٹس کیوں بنایا گیا۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس کی ہدایت پر جوڈیشل کونسل کے دو اراکین کے اختلافی خطوط پر اجلاس کی آڈیو جاری

ان کا کہنا تھا کہ جسٹس اطہر من اللہ کو سپر سیڈ کیا گیا، اگر وہ فٹ نہیں تو انھیں رکھا کیوں گیا یے، یہ صوبے کے عوام کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی کے مترادف ہے، آئین میں لکھا ہے کہ سینر ترین جج چیف جسٹس بنے گا لیکن ہائی کورٹ میں ججوں کی تقرری کے لیے یہ نہیں ہے، یہ تضاد کیوں ہے؟

'ترمیم کی جائے کہ ہائی کورٹ کا سینئر ترین جج چیف جسٹس بنے'

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ترمیم کی جائے کہ ہائی کورٹ کا سینئر ترین جج چیف جسٹس بنے۔

سینیٹر فاروق ایچ نائیک کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی 14 دن میں کیسے ججوں کی تقرری کا فیصلہ کر سکتی ہے اس معیاد کو بڑھا کر 30 دن کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کو ربڑ اسٹیمپ بنا دیا گیا ہے، پارلیمان کے پاس اختیار آنا چاہے، آرٹیکل میں یہ ترمیم کی جائے کہ پارلیمانی کمیٹی کا فیصلہ کسی عدالت میں چیلنج نہ ہو سکے، ہر طرف سے ہم کو ہی مار پڑ رہی ہے ، قانون بنانا ہمارا کام ہے۔

'ہائی کورٹ کا جج کام نہیں کرتا تو ان کو نکالیں'

ان کا کہنا تھاکہ ہم آزاد ججز چاہتے ہیں لیکن جج مؤثر ہونے چاہئیں، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مانیٹرگ کمیٹی بنائیں جو ججوں کی کارکردگی دیکھے، ہائی کورٹ کا جج کام نہیں کرتا تو ان کو نکالیں۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں فیصلے ڈکٹیٹ نہیں کرائے، جسٹس فائز عیسیٰ کا خط

جس کے بعد ججوں کی تقرری سے متعلق آئینی ترمیمی بل پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔

اسی طرح پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) ترمیمی بل 2022 بھی پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔

الیکشن کمیشن عزت اور توقیر کھو چکا ہے، سینیٹر اعظم سواتی

قبل ازیں، سینیٹ کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اراکین نے استعفے دیے تھے جو سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے منظور کر لیے تھے، اب 11 استعفے منظور کرکے وہاں الیکشن کی تیاری کی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کروانے ہیں تو پورے ملک میں کروائیں، الیکشن کمیشن عزت اور توقیر کھو چکا ہے،

جس پر جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آپ کا الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے اوپر پہلے سے ہاتھ بھاری ہے، پہلے بھی آپ نے ای سی پی پر چڑھائی کی، پھر تحریری معافی مانگ کر نکلے۔

یہ بھی پڑھیں: پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس 22 اگست تک ملتوی

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ کہاں استعفے دیے ہیں، نہ لاجز خالی کر رہے ہیں نہ گاڑیاں واپس کی ہیں، عمران خان کی مرضی سے حکومتی بینچز نے سکندر سلطان راجا کا نام چیف الیکشن کمشنر کے لیے دیا تھا، اب اگر ممنوعہ فنڈنگ کیس کھل ہی گیا ہے تو اس طرح نہ کریں۔

اعظم سواتی نے چیف الیکشن کمشنر پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ ہماری طرف سے چیف الیکشن کمشنر کے لیے یعقوب بابر کا نام دیا گیا تھا، 2 نمبر آدمی جس کا نام بھی نہیں لینا چاہتا، بنیادی طور پر یہ دو نمبر بندہ ہے، اس پلانٹڈ شخص کو قبول نہیں کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں