لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔
لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

سیاسی رہنماؤں کی جانب سے اپنے مخالفین کو بُرا بھلا کہنے کا سب سے سنگین نقصان یہ ہوا ہے کہ سیاستدانوں پر عوام کا اعتماد ختم ہوگیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اتحادی حکومت میں شامل جماعتیں ہر وقت ایک دوسرے پر بددیانت اور کرپٹ ہونے کا الزام عائد کرتی رہتی ہیں۔ ان جماعتوں کے رہنما اور ترجمان نہ اپنی پالیسیوں کی وضاحت کرتے ہیں اور نہ یہ بتانے پر توجہ دیتے ہیں کہ وہ کس طرح عوام کی خدمت کریں گے۔ اس کے برعکس ان کی زیادہ تر توانائیاں مخالفین پر الزامات لگانے میں صرف ہوتی ہیں۔ ’ڈاکو‘ اور ’چور‘ جیسے الفاظ اب اتنے عام ہوچکے ہیں کہ تمام جماعتوں کے سیاسی بیانیے کا حصہ بن گئے ہیں۔

سیاسی مخالفین کو مستقل بُرا بھلا کہنا شاید اب معمول بن گیا ہے لیکن اس کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔ میڈیا اس بیان بازی کو اسکینڈل اور مالی بدعنوانی سے جوڑ کر مزید ہوا دے رہا ہے جس سے پورا سیاسی طبقہ بدنام ہورہا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ کچھ سیاستدان ایسے ہوتے ہیں جن کے حامی ان کے بارے میں کوئی بھی منفی چیز قبول نہیں کرتے۔ اگر ان کے سامنے حقائق بھی رکھے جائیں تو وہ انہیں جھٹلا دیتے ہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے لیکن اس طرح ان لوگوں پر اس کے اثرات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے جو کسی قسم کی سیاسی وفاداری نہیں رکھتے۔ اگر انتخابات کے ٹرن آؤٹ کو مثال بنایا جائے تو یہ ملک کی تقریباً نصف آبادی بنتی ہے۔

مزید پڑھیے: کیا پاکستان ریاست چلانے والوں سے محروم ہے؟

2018ء کے انتخابات میں ووٹ دینے کے اہل تقریباً 50 فیصد افراد نے ووٹ نہیں ڈالا تھا۔ یہ فرض کیا جاسکتا ہے کہ ان میں سے اکثریت کی کسی سیاسی جماعت سے وابستگی نہیں ہوگی۔ جب لوگ سیاستدانوں کو اپنے مخالفین پر الزامات عائد کرتے اور انہیں ’غدار‘ کہتے دیکھتے ہیں تو وہ یہ تاثر لیتے ہیں کہ ہماری پوری سیاسی اشرافیہ خود غرض ہے اور اس کی اپنی کوئی ساکھ نہیں ہے۔

حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان جاری محاذ آرائی کے نتیجے میں سیاسی تقسیم ریکارڈ سطح تک پہنچ چکی ہے۔ اس صورتحال کے دوران عوام کی نظروں میں سیاسی رہنماؤں کا تاثر خراب ہوتا ہے خاص طور پر ایسے وقت میں جب سیاستدانوں کی توجہ اور ترجیح معاشی بحران سے نمٹنا ہونی چاہیے تاکہ عوام کو درپیش مشکلات کو کم کیا جاسکے اور یہی عمل سیاستدانوں پر عوامی عدم اطمینان کی وجہ بنتا ہے۔

اس کے نتیجے میں سیاسی اداروں پر موجود اعتماد متاثر ہوتا ہے کیونکہ انہیں عوامی مسائل سے لا پرواہ اور اقتدار کی جدوجہد میں مصروف سمجھا جاتا ہے۔ اعتماد کے اس فقدان کے بعد سیاسی عمل سے دُور ہونے کا مرحلہ آتا ہے۔ یہ جمہوریت کے لیے نقصاندہ ہے کیونکہ جمہوریت کے لیے متحرک اور ’پُراعتماد‘ شہریوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

جب عوام میں یہ تاثر پروان چڑھنے لگے کہ سیاست عوامی مقاصد کے تحت نہیں کی جارہی تو پھر جمہوری نظام کو نقصان پہنچتا ہے۔ اگر حکومتیں سیاسی مفادات کے لیے کام کرتی ہوئی اور نااہل نظر آئیں تو پھر حکومت پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔

کسی بھی نظام کو چلانے کے لیے اعتماد کا عنصر بہت اہم ہوتا ہے۔ اگر عوام سیاسی اشرافیہ اور حکومتوں کا احترام نہ کریں تو ان کے حکومت کرنے کے اختیار پر بھی سوالات اٹھ سکتے ہیں۔

سیاسی پیچیدگیوں کو ایک جانب رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو پاکستان وہ واحد ملک نہیں ہے جہاں سیاسی نظام اور حکومتوں پر عوام کا اعتماد کم ہورہا ہے بلکہ یہ رجحان اب دنیا بھر میں نظر آرہا ہے۔

مزید پڑھیے: اس سیاسی بحران میں کسی کا فائدہ ہو نہ ہو ملک کا نقصان ضرور ہے

اس حوالے سے مختلف مطالعات بھی ہوئے ہیں جن میں مختلف ممالک کے تناظر میں مختلف عوامل کی وضاحت کی گئی ہے۔ تاہم ان میں کچھ چیزیں مشترک بھی ہیں۔

جن مجموعی وجوہات کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں بڑھتی ہوئی اور پوری نہ ہونے والی امیدیں، سیاسی اشرافیہ اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی دُوری، رہنماؤں کا طرزِ عمل، حکومت اور عوام میں دُوری، معاشی کارکردگی کے حوالے سے عوامی تنقید اور معلومات کے حصول میں آنے والا انقلاب ہے جو عوام کو کئی طرح سے بااختیار بنا رہا ہے۔

ان مباحث میں جو اہم عوامل سامنے آئے وہ سیاسی تفریق کے منفی مضمرات تھے، اور ایسا مشرق میں بھی تھا اور مغرب میں بھی۔ اسے سیاسی اداروں اور ان کے کرتا دھرتاؤں میں عوام کے عدم اعتماد کی وجہ سمجھا جاتا ہے۔

اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں ریاستی اداروں کا طرزِ عمل بھی عوام کے اعتماد پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہاں بھی تصورات ہی حقیقت کو تشکیل دیتے ہیں۔

یہاں جب یہ سمجھا جاتا ہے کہ عدالتیں غیر متوازن اور منتخب انصاف فراہم کررہی ہیں تو ان پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔ یہ صرف زبانی بات نہیں ہے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے، یہ کسی بھی نظامِ انصاف کا ایک اہم اصول ہے۔

جب لوگ یہ سمجھتے ہیں انصاف کی فراہمی میں دوغلے معیارات اور عدم شفافیت سے کام لیا جارہا ہے تو اس سے عدلیہ کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے لے کر ہر فوجی بغاوت کو قانونی قرار دینے تک متنازعہ فیصلوں کی تاریخ ہے جس کی وجہ سے اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے عوام میں ناپسندیدگی پیدا ہوئی۔ ’صادق‘ اور ’امین‘ کی تشریح کیے جانے سے بھی شکوک و شبہات دُور نہیں کیے جاسکے۔

اس کے علاوہ جب ادارے آئین کی متعین کردہ حدود سے آگے بڑھ کر کام کرتے ہوئے نظر آئیں تو اس سے بھی تنازع جنم لیتا ہے اور عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ بعض اوقات پارلیمنٹ اور انتظامیہ نے بھی ایسے اقدامات کیے ہیں جو ان کے آئینی اختیارات سے باہر تھے۔

تاہم آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض اوقات اعلیٰ عدلیہ نے بھی اپنے دائرہ اختیار سے نکل کر کام کیا ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ کچھ قانونی ماہرین نے آرٹیکل 63 اے پر عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے کی گئی تشریح کو ’آئین کو دوبارہ تحریر کرنے‘ کے مترادف قرار دیا۔

مزید پڑھیے: معاشی بدحالی اور سیاسی اختلافات ملک کو کس جانب لے جارہے ہیں؟

رائے عامہ کا سروے یہ بتاتا ہے کہ دیگر اداروں کی نسبت فوج پر عوام زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ فوجی قبضوں کی ایک تاریخ اور حالیہ ’ہائبرڈ‘ حکومت کے تجربے، جس میں فوج نے خود کو سول حکومت کے کئی امور میں شامل رکھا، نے اس کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔

سیاست میں فوج کے کردار اور حدود سے تجاوز کیے جانے پر اب عوامی سطح پر پہلے سے زیادہ سوالات ہوتے ہیں، چاہے فوج کے یہ اقدامات حقیقی ہوں یا نہ ہوں۔

منتخب اور غیر منتخب اداروں کے درمیان طاقت کے عدم توازن کے جمہوریت پر اثرات کے بارے میں طویل عرصے سے تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ یہ تاریخ کا ایسا بوجھ ہے کہ جب اسٹیبلشمنٹ اصرار کرتی ہے کہ وہ غیر سیاسی ہے تو ان دعوؤں پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات تنقید سیاسی رہنماؤں کی طرف سے ہوتی ہے جو چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست سے دُور رہنے کے بجائے ان کا ساتھ دے۔

کیا یہ سب کچھ سیاسی رہنماؤں اور اداروں پر اعتماد کا بحران پیدا کرتا ہے؟ کسی حد تک یہ بات درست ہے لیکن ایسا ہونا نہیں چاہیے۔

یہ اعتماد بحال کیا جاسکتا ہے اگر سیاسی رہنما خود غرضی چھوڑ دیں اور عوامی تحفظات کو سیاسی مفادات پر فوقیت دیں اور یہ بھی مان لیں کہ مخالفین دشمن نہیں بلکہ سیاسی حریف ہیں۔ اداروں پر بھی اعتماد پیدا ہوسکتا ہے اگر آئینی پابندیوں اور قواعد کا صرف زبانی ہی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی احترام کیا جائے۔


یہ مضمون 8 اگست 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Polaris Aug 13, 2022 01:42am
All due to proven corrupt, convicted and absconded politicians.