ایران نے سابق مشیر قومی سلامتی کو قتل کرنے کی سازش کا امریکی دعویٰ مسترد کردیا

11 اگست 2022
جان بولٹن بھی ایران کے سخت مخالف رہے ہیں — فائل فوٹو: سی این این
جان بولٹن بھی ایران کے سخت مخالف رہے ہیں — فائل فوٹو: سی این این

ایران نے امریکا کے اس دعوے کو ’افسانہ‘ قرار دیتے ہوئے رد کردیا ہے کہ اس نے اپنے اعلیٰ فوجی سربراہ کے بدلے میں وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن کو قتل کرنے کے لیے سازش کی۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق امریکا کا یہ دعویٰ ایران اور اہم بڑی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے کی بحالی پر ہونے والے مذاکرات کے ایک اہم مرحلے پر سامنے آیا ہے جس سے واشنگٹن 2018 میں دستبردار ہوگیا تھا، بعد ازاں اس نے پھر اس معاہدے کو بحال کرنے کی بات کی جس پر اب ایران بھی غور کر رہا ہے اور یورپی یونین کے ثالثوں نے اسے 'حتمی متن' قرار دیا ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نصیر کنانی نے کہا کہ امریکی محکمہ انصاف، ٹھوس ثبوت پیش کیے بغیر ایسے الزامات عائد کرکے افسانے کا ایک نیا مرحلہ تیار کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں: ایران: جنرل قاسم سلیمانی کی تدفین کےدوران بھگدڑ، 56 افراد ہلاک

نصیر کنانی نے کہا کہ اس بار وہ (امریکی) ایک ایسی سازش لائے ہیں جس میں انہوں نے جان بولٹن جیسے لوگوں کو شامل کیا ہے جن کا سیاسی کیریئر ناکام ہوگیا۔

ایران نے مضحکہ خیز الزامات کی بنیاد پر ایرانی شہریوں کو نشانہ بنانے والے کسی بھی اقدام کے خلاف خبردار کیا ہے۔

امریکی محکمہ انصاف نے بدھ کو اپنے بیان میں کہا تھا کہ قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن کو قتل کرنے کے لیے امریکا میں ایک شخص کو 3 لاکھ امریکی ڈالر دینے کے الزام میں ایرانی پاسداران انقلاب کے ایک رکن پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔

بیان نے کہا گیا کہ یہ منصوبہ جنوری 2020 میں ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی کو عراق میں قتل کرنے پر انتقامی کارروائی کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا سے قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لیں گے، ایران

پاسداران انقلاب کے رکن شہرام پورصفی پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے امکانی طور پر دوسرے ہدف تک بھی رسائی حاصل کرلی تھی جس کے بارے میں ان کے بقول قاتل کو 10 لاکھ ڈالر دیے جاتے۔

عدالت میں موجود دستاویزات میں اگلے ہدف کا تعین نہیں کیا گیا مگر امریکی میڈیا ادارے 'ایشیوس' کے مطابق اگلے ہدف میں سابق وزیر خارجہ اور سی آئی اے ڈائریکٹر مائیک پومپیو شامل تھے۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق پاسداران انقلاب کے رکن شہرام پورصفی جس شخص کے ساتھ معاملہ طے کر رہا تھا وہ دراصل امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کا ایک مخبر تھا۔

ان پر کرایہ پر قتل کے کمیشن میں بین الریاستی تجارت کی سہولیات کے استعمال کا الزام عائد کیا گیا ہے جس میں 10 سال تک قید ہو سکتی ہے, اس کے علاوہ اور ایک بین الاقوامی قتل کی سازش میں مدد فراہم کرنے کی کوشش کا جرم بھی شامل کیا گیا ہے جس میں 15 سال کی سزا ہوسکتی ہے۔

امریکی محکمہ انصاف کا کہنا ہے کہ پاسداران انقلاب کا رکن تاحال گرفتار نہیں ہوا اور وہ ممکنہ طور پر ایران میں ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: عراق: ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پر ہزاروں افراد کی ریلی

وائٹ ہاؤس کے موجودہ قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران نے ہمارے کسی بھی شہری پر حملہ کیا، جس میں حاضر سروس افسران یا سابق شامل ہوں گے تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔

واضح رہے کہ ایرانی پاسداران انقلاب کے ایک اہم سربراہ قاسم سلیمانی 7 جنوری 2020 کو بغداد ہوائی اڈے پر اترنے کے بعد ایک امریکی ڈرون حملے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔

ان کی موت کے بعد تہران نے اس کا بدلہ لینے کا عزم کیا تھا جس پر امریکا نے موجودہ اور سابق عہدیداروں کے لیے سیکورٹی بڑھا دی جن میں مائیک پومپیو بھی شامل ہیں، جو قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے وقت وزارت خارجہ کی قیادت کر رہے تھے۔

مائیک پومپیو کی طرح جان بولٹن بھی ایران کے سخت مخالف رہے ہیں اور اپریل 2018 سے ستمبر 2019 تک سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت میں قومی سلامتی کے مشیر رہ چکے ہیں۔

مزید پڑھیں: ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کا جسد خاکی ایران منتقل

وہ 2015 کے معاہدے کے سخت مخالف تھے جس میں ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کیا گیا تھا اور مئی 2018 میں انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کی معاہدے سے دستبرداری کی حمایت کی تھی۔

جان بولٹن نے بدھ کو ایک بیان میں ایران کی حکومت کو جھوٹا، دہشت گرد اور امریکا کا دشمن قرار دیا تھا۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نصیر کنانی نے کہا کہ امریکی محکمہ انصاف کے بے بنیاد دعوے قاسم سلیمانی کے بزدلانہ قتل جیسے متعدد جرائم جن میں امریکی حکومت براہ راست ملوث ہے ان سے کے ذمہ دار ہونے سے بچنے کے لیے کیے گئے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں