35 ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری مسترد

17 اگست 2022
فارما کی صنعت نے روپے کی قدر میں کمی کے سبب قیمت میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی
فارما کی صنعت نے روپے کی قدر میں کمی کے سبب قیمت میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی

وفاقی کابینہ نے وزارت قومی صحت کی جانب سے کم از کم 35 ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے لیے پیش کی گئی سمری کو مسترد کر دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سمری کی منظوری کی صورت میں لوگ 'مہنگے متبادل کے انتخاب' پر مجبور ہو جاتے لیکن سمری مسترد ہونے پر فارماسیوٹیکل انڈسٹری کو خدشہ ہے کہ 'جلد بازی میں کیے گئے فیصلے کے نتیجے میں نسبتاً سستی دواؤں کو بند کر دیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: فارما انڈسٹری کا ادویات کی قیمتوں میں 25 فیصد اضافے کا مطالبہ

منگل کو وزیراعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق وفاقی کابینہ نے وزارت کی جانب سے پیش کی گئی سمری کو متفقہ طور پر مسترد کرتے ہوئے حکم دیا کہ وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیر ادویات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کیا جائے۔

وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ان 35 ادویات میں کینسر کے خلاف ادویات، درد کش ادویات اور کچھ اینٹی بائیوٹک شامل ہیں، انہوں نے کہا کہ مشکلات کے پیش نظر ان کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کی تجویز دی گئی تھی لیکن وفاقی کابینہ نے سمری کو مسترد کر دیا، حکومت کے اس فیصلے پر عمل کیا جائے گا۔

ڈرگ ریگولیٹری آف پاکستان (ڈریپ) کے ایک عہدیدار کے مطابق یہ سمری ایک تفصیلی مشق کے بعد پیش کی گئی جس میں ادویات کی خریداری کی قیمت اور پیداواری لاگت کا پتہ لگانے کے لیے کمپنیوں سے تمام اصل دستاویزات مانگی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: ادویات کی قیمتوں میں اضافہ، غریب طبقے کو علاج مکمل کروانے میں مشکلات کا سامنا

یہ بات غور طلب ہے کہ نومبر 2013 میں وزارت صحت نے ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی اطلاع دی تھی تاہم نوٹیفکیشن کو اگلے دن واپس لے لیا گیا تھا جب اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے قیمتوں میں اجافے پر ردعمل کو دیکھتے ہوئے وزارت سے کہا تھا کہ وہ قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن واپس لے۔

مہنگے متبادل؟

کابینہ کی جانب سے قیمتوں میں اضافے سے انکار پر پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن خوش نہیں ہے جس کو خدشہ ہے کہ کمپنیاں اپنی پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے یہ ادویات تیار نہیں کر پائیں گی، ایسوسی ایشن نے کہا کہ اس طرح کے اقدام کے نتیجے میں ان دوائیوں کو بند کردیا جائے گا جو 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں رجسٹرڈ کی گئی تھیں جب پاکستانی روپیہ آج کی نسبت امریکی ڈالر کے مقابلے میں مضبوط تھا۔

پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن حامد رضا نے دعویٰ کیا کہ اس وقت ان دوائیوں کی قیمتیں ایکسچینج ریٹ کے مطابق طے کی گئی تھیں جو کہ 'بہت کم' تھیں اور آج بھی وہی ریٹ چل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ کمپنیاں زیادہ سے زیادہ خوردہ قیمت سے زائد پر ادویات فروخت نہیں کر سکتیں، اس لیے ان کی پیداواری لاگت اس مذکورہ قیمت سے تجاوز کر گئی ہے اور کمپنیوں کے لیے ان ادویات کی تیاری جاری رکھنا قابل عمل نہیں رہا۔

مزید پڑھیں: روس سے کینسر کی سستی ادویات کی درآمدات دوبارہ شروع

حامد رضا نے دعویٰ کیا کہ 2000 کے بعد رجسٹرڈ اسی طرح کی دوائیں روپے اور ڈالر کی قدر میں بڑے فرق کی وجہ سے زیادہ نرخوں پر فروخت ہو رہی ہیں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ 'مجھے یقین ہے کہ وفاقی کابینہ اس معاملے کو نہیں سمجھ سکی جس کی وجہ سے یہ ادویات مارکیٹ سے غائب ہو جائیں گی اور ان کے متبادل بہت زیادہ نرخوں پر دستیاب ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں