لزٹرس ملکہ سے ملاقات کے بعد برطانیہ کی نئی وزیر اعظم بن گئیں

06 ستمبر 2022
نو منتخب وزیر اعظم کی ملکہ برطانیہ سے ملاقات —فوٹو: رائٹرز
نو منتخب وزیر اعظم کی ملکہ برطانیہ سے ملاقات —فوٹو: رائٹرز

بورس جانسن کے استعفے کے کنزرویٹو پارٹی کی سربراہ منتخب ہونے والی سابق سیکریٹری خارجہ لز ٹرس نے ملکہ برطانیہ سے ملاقات کی اور اس کے بعد وہ باقاعدہ طور پر برطانیہ کی نئی وزیراعظم بن گئیں۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق سابق سیکریٹری خارجہ امور لر ٹرس کو ملکہ برطانیہ کی طرف سے نئی حکومت تشکیل دینے کی پیش کش کی گئی اور انہوں نے ہاتھ ملاتے ہوئے اس پیش کش کو قبول کر لیا، جس کی تصاویر بھی سامنے آئیں ہیں۔

مزید پڑھیں: لز ٹرس برطانیہ کی نئی وزیر اعظم منتخب

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملکہ برطانیہ نے 47 سالہ لز ٹرس کو نئی حکومت بنانے اور ملک کی 15ویں وزیر اعظم بننے کی باضابطہ طور پر پیش کش کی اور برطانیہ کے ہاتھ پر بوسہ دیا۔

علامتی تقریب اسکاٹش ہائی لینڈز کے علاقے بالمورل میں ہوئی کیونکہ 96 سالہ ملکہ برطانیہ کو صحت کی خرابی کے باعث لندن واپس جانے میں مشکلات درپیش تھیں۔

بکنگھم پیلس کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ملکہ برطانیہ نے آج رکن اسمبلی لز ٹرس کو ایک پروقار تقریب میں نئی حکومت تشکیل دینے کی دعوت دی جو کہ لز ٹرس نے قبول کی۔

واضح رہے کہ بالمورل میں اس سے قبل اقتدار کی منتقلی 1885میں ہوئی تھی، جب ملکہ وکٹوریہ تخت پر براجمان تھیں۔

عام طور پر سبکدوش ہونے والے اور نئے آنے والے وزیر اعظم وسطی لندن کے بکنگھم پیلس میں ملکہ سے ملاقات کرتے ہیں مگر لندن کے باہر ایسا صرف ایک بار 1952 میں ہوا تھا جب ونسٹن چرچل نے ملکہ کے والد بادشاہ جارج ششم کی موت کے بعد ہیتھرو ایئرپورٹ پر ان سے ملاقات کی تھی۔

رپورٹ میں بتایا گای کہ برطانیہ میں تیز بارش اور طوفان کی پیش گوئی کی جارہی ہے اور معاشی صورت حال بھی سامنے ہے، جس سے انہیں اور ان کے نئے سینئر وزرا کو اب سامنا کرنا پڑے گا۔

امکان ہے کہ بزنس سیکریٹری کواسی کوارٹینگ وزیر خزانہ بنیں گے، اٹارنی جنرل سویلا بریورمین سیکرٹری داخلہ نامزد ہوں گے جبکہ جیمز کلیورلی کو خارجہ امور میں منتقل کر دیا جائے گا۔

اگر اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے تو اس سے واضح ہوگا کہ پہلی بار برطانیہ کے چار اہم وزارتی عہدوں پر کوئی بھی سفید فام برطانوی منتخب نہیں ہوگا۔

خیال رہے کہ برطانیہ کی حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی نے بورس جانسن کی جگہ ملک کے نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے سیکریٹری خارجہ لز ٹرس کے حق میں ووٹ دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا معاشی بحران سنگین، بورس جانسن چھٹیاں منانے چلے گئے

لندن میں کنزرویٹو پارٹی کے رہنماؤں لز ٹرس اور رشی سوناک کے درمیان پارٹی کی قیادت کے لیےمقابلہ ہوا تھا تاہم لز ٹرس نے الیکشن اور وزارت عظمیٰ کی دوڑ جیت گئیں تھیں۔

کنزرویٹو پارٹی کے اراکین کی ووٹنگ میں لز ٹرس نے 81 ہزار 326 (57.4 فیصد) ووٹ جبکہ رشی سوناک نے 60 ہزار 399 (42.6 فیصد) ووٹ حاصل کیے تھے۔

برطانیہ کی نئے وزیر اعظم کو مہنگائی، صنعتی عدم استحکام اور کساد بازاری جیسے بحرانوں کا سامنا کرنا ہے۔

نتائج کے اعلان کے بعد لز ٹرس نے کہا تھا کہ ہمیں یہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ ہم اگلے دو برس میں پیش رفت کریں گے، میں ٹیکسز کم کرنے کے لیے بڑا منصوبہ بناؤں گی اور اپنی معیشت بہتر کریں گے۔

انہوں نے کہا تھا کہ میں توانائی کے بحران، عوام کے بجلی کے بلوں کے حوالے سے کام کروں گی اور اس کے ساتھ ساتھ توانائی کی فراہمی سے متعلق مسائل پر کام کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ بورس جانسن کے بعد وزارت عظمیٰ سنبھالنے والی لز ٹرس 2015 کے عام انتخابات کے بعد کنزرویٹو پارٹی کی چوتھی وزیر اعظم ہوں گی، اس دوران ملک کو کئی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا اور اب طویل کساد بازاری اور بدترین مہنگائی کا خدشہ ہے۔

بورس جانسن کی کابینہ میں بطور وزیر کام کرنے والی 47 سالہ لز ٹرس نے مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ مہنگائی اور توانائی کے بحران پر قابو پالیں گی، ٹیکس میں اضافے اور دیگر لیویز کا خاتمہ کریں گی۔

مزید پڑھیں: جمہوریت کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے، برطانوی وزیر خارجہ

رپورٹ کے مطابق جولائی میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے والے بورس جانسن منگل کو ملکہ ایلزبیتھ سے ملاقات کریں گے اور باقاعدہ طور پر اپنا استعفیٰ پیش کریں گے جس کے بعد وہ لز ٹرس کو حکومت تشکیل دینے کا کہیں گی۔

یاد رہے کہ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے مختلف اسکینڈلز کے باعث ملک میں سیاسی بحران شدت اختیار کرنے کے بعد جولائی میں کنزرویٹو پارٹی کی قیادت اور وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا تھا اور کہا تھا کہ اگلے وزیر اعظم کے انتخاب تک وہ کام کرتے رہیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں