لاپتا افراد کے معاملے پر پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے، وزیر داخلہ

20 ستمبر 2022
وزیر داخلہ نے کہا کہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے پوری کوشش کریں گے — فوٹو: ڈان نیوز
وزیر داخلہ نے کہا کہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے پوری کوشش کریں گے — فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے لاپتا افراد کے معاملے پر پاکستانی کی بدنامی ہوتی ہے اور ان کو بازیاب کرنا ریاستی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنماؤں خالد مقبول صدیقی، سابق میئر کراچی وسیم اختر، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما ایاز صادق اور دیگر کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے لاپتا افراد کی بازیابی پر بات کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے کہا کہ ریاست کا بنیادی فلسفہ اسی بات سے عبارت ہے اور جو ریاست ایسا نہیں کر سکتی وہ ریاست اپنے بنیادی فرض سے غافل ہے۔

مزید پڑھیں: جبری گمشدگیوں میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ملوث: نسرین جلیل

انہوں نے کہا کہ ہم ایم کیو ایم قیادت سے لاپتا افراد پر اظہار تعزیت اور افسوس کا اظہار کرنے آئے ہیں اور وہ لاپتا افراد جو ابھی تک بازیاب نہیں ہوئے ان کے اہلخانہ سے بھی ملاقاتیں کریں گے حالانکہ ان کا دکھ بانٹا نہیں جاسکتا کیونکہ یہ ایسا دکھ ہے جو موت سے بھی زیادہ اذیت ناک ہے۔

رانا ثنااللہ نے کہا کہ لاپتا افراد کے لواحقین نے اپنے دکھ کا اظہار کیا مگر مہمان ہونے کے ناطے ہمارا لحاظ بھی کیا جس پر ہم ان کے مشکور ہیں، لہٰذا ہم نے ان لواحقین کو اتحادی حکومت اور وزیر اعظم کی طرف سے یقین دلایا ہے کہ ہم کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے اور لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ لاپتا افراد کا معاملہ ایسا ہے جس سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے اور بہت سی بین الاقوامی تنظیمیں اس معاملے پر سوال اٹھاتی ہیں، مگر ہم لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے پوری کوشش کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: لاپتہ افراد کے متعلق سفارشات تیار

ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل کوئٹہ میں بھی لاپتا افراد کے لواحقین نے 50 دن تک دھرنا دیا ہوا تھا تو وہاں بھی ان کی خدمت کے لیے ہم حاضر ہوئے اور اپنی نیت اور کوشش کے ساتھ اپنے عزم کی یقین دہانی کروائی جس کے نتیجے میں انہوں نے اپنا دھرنا ختم کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا ہمیشہ سے مؤقف رہا ہے کہ تشدد اور گمشدگی احترامِ آدمیت کے خلاف ہیں اور انسان کی عظمت کے خلاف ہیں جس پر آئینِ پاکستان میں لکھا ہے کہ جو ایسے کاموں میں ملوث ہیں وہ آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں رانا ثنااللہ نے کہا کہ یہ کوئی ’فیس سیونگ‘ نہیں مگر یہ پورے پاکستان اور قوم کا اہم معاملہ ہے کیونکہ یہ بہت اذیت ناک دکھ ہے۔

سوات میں دوبارہ طالبان کی واپسی پر انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف افواہ ہے یا افواہ بنائی جارہی ہے، سوات میں طالبان کی واپسی نہیں ہوئی کیونکہ ہمارے سیکیورٹی ادارے پوری طرح سے الرٹ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایم کیو ایم کا وزیراعلیٰ ہاؤس کے باہر دھرنا ختم

سابق وزیر اعظم عمران خان کے متعلق وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ’ایکس‘ اور ’وائی‘ کا عمران خان کو پتا ہونا چاہیے اور اگر وہ اتنی جرأت رکھتے ہیں تو پھر ایکس، وائی کرنے کی کیا ضرورت ہے، سیدھی بات کریں یا پھر بات کرنا چھوڑ دیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم کسی کے خلاف بھی اس طرح کی کارروائی نہیں کرنا چاہتے، اگر کسی نے جرم کیا ہے تو عدالتیں و قانون موجود ہے، مگر ہم گمشدگی یا لاپتا کرنے کی بات کے خلاف ہیں۔

جنہوں نے لاپتا کیا ہے ان کو سزا دلوانا نہیں چاہتے، خالد مقبول صدیقی

اس موقع پر بات کرتے ہوئے ایم کیو ایم رہنما خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہم ایک ایسی ریاست میں رہتے ہیں جہاں لوگوں کو لاپتا کرنا جرم ثابت نہیں ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں: 'لاپتہ کارکنوں کی بازیابی کیلئے حکومت ذمہ داری پوری کرے'

انہوں نے کہا کہ ہم اب بھی کہہ رہے ہیں کہ جنہوں نے لاپتا کیا ہے ان کو سزا دلوانا نہیں چاہتے مگر ہم تو چاہتے ہیں کہ ہمارے پیارے اپنے گھروں میں واپس آئیں اور اس معاملے پر کوئی بھی قانون سازی کرنی ہے تو ہم تیار ہیں۔

خالد مقبول نے کہا کہ خدا کے واسطے پاکستان میں اب اس سلسلے کو ختم کیا جائے اس سے پہلے کہ خدا کا انصاف خود اتر کر آئے کیونکہ کسی بھی مہذب اور اسلامی معاشرے میں اس عمل کی گنجائش نہیں ہے جس کو ہم نے رواج دے رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے قبل 1988 میں بھی ہمارے 27 کارکنان کو لاپتا کیا گیا اور ہمیں ’کان‘ میں بتا دیا گیا کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے اس لیے جو اس وقت لاپتا افراد ہیں ان کی ماؤں کو ہم اس غم کا شکار نہیں کرنا چاہتے۔

مزید پڑھیں: ایم کیو ایم کا کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل پر احتجاج

ان کا کہنا تھا کہ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نے کوئی دہشت گردی نہیں کی، ہمارے احتجاج کو دہشت گردی اور اعتراض کو غداری کہنا بند کیا جائے اور سزا اتنی دی جائے جتنا ہم نے جرم کیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں