آڈیو لیکس پر جے آئی ٹی تشکیل، قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب

اپ ڈیٹ 27 ستمبر 2022
قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منگل کے روز طلب کیا گیا ہے — فائل فوٹو: پی ایم او
قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منگل کے روز طلب کیا گیا ہے — فائل فوٹو: پی ایم او

وزیر اعظم آفس (پی ایم او) میں ہونے والی گفتگو کے مزید آڈیو کلپس آن لائن منظر عام پر آنے سے دفترِ وزیر اعظم کی سائبر سیکیورٹی کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔

چنانچہ وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ معلوم کرنے کے لیے کہ ملک کے اعلیٰ ترین دفتر میں ہونے والی غیر رسمی گفتگو کیسے لیک ہوئی، قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کا اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بھی اطلاعات ہیں کہ بڑے پیمانے پر سیکیورٹی میں خرابی کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی گئی ہے اور اعلیٰ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ابتدائی انکوائری مکمل کرلی ہے، جس کی رپورٹ وزیر اعظم کے سامنے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پیش کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: حکومتی اراکین کی مزید ’آڈیو کلپس‘ لیک، دفتر وزیراعظم کی سیکیورٹی پر پی ٹی آئی کے سوالات

دوسری جانب جب وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے ہیکنگ کے امکان کو 'چائے کی پیالی میں طوفان' قرار دیتے ہوئے معمولی ظاہر کرنے کی کوشش کی تو اس پر اعتراضات اٹھے۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ محض 'موبائل فونز کی ہیکنگ' ہے تو اس میں پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں لیکن اگر کسی نے وزیر اعظم ہاؤس کو بَگ (جاسوسی کے لیے آلات نصب کرنا) کردیا ہے تو یہ سیکیورٹی کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

وزیر داخلہ نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں بتایا کہ 'صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر وزیر اعظم نے منگل کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا ہے جس میں اعلیٰ سول اور عسکری قیادت شرکت کرے گی۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر یہ جاسوسی ہے تو یہ معلوم کرنا ایک سنگین مسئلہ ہے کہ ڈیوائس کیسے لگائی گئی اور اس کے پیچھے کون ہے، اگر یہ سچ ہے تو اس میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔'

مزید پڑھیں: مبینہ آڈیو میں وزیر اعظم سے رشتہ دار کو 'سہولت' فراہم کرنے کی درخواست کا انکشاف

انہوں نے مزید کہا کہ لیکن اگر یہ صرف کچھ لوگوں کے موبائل فونز کی 'سادہ ہیکنگ' تھی جو شاید وزیر اعظم ہاؤس گئے ہوں تو یہ کوئی سنگین بات نہیں تھی۔

اس معاملے میں وزیر اعظم ہاؤس کا کوئی ویٹر یا کوئی اور عملہ ملوث ہو سکتا ہے، ہم انہیں قانون کے مطابق سزا دیں گے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) نے اس معاملے پر اپنی ابتدائی انکوائری مکمل کرلی ہے اور ان کے سربراہان وزیر اعظم کو این ایس سی کے اجلاس میں نتائج سے آگاہ کریں گے۔

جدید ٹیکنالوجی کے دور پر اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے اتفاق سے کہا کہ آج کی دنیا میں کسی کا بھی موبائل فون بشمول ان کا اپنا یا وزیراعظم شہباز شریف کا فون ہیک کیا جاسکتا ہے 'لیکن اس معاملے میں حکومت مستقبل میں ایسی ہیکنگ کو روکنے کے لیے اقدامات کرے گی'۔

یہ بھی پڑھیں: آڈیو لیکس کی مزید اقساط بھی آنے والی ہیں، عمران خان

دوسری جانب ڈان کے بائٹس فار آل کے شہزاد احمد سے رابطہ کرنے پر انہوں بتایا کہ یہ ممکن ہے کہ کسی ہیکر کو بگنگ (جاسوسی) ڈیوائس تک رسائی حاصل ہو جسے مقامی جاسوس ایجنسیوں نے سرکاری دفاتر میں نصب کیا ہو۔

وزیر داخلہ کے ریمارکس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے شہزاد احمد نے اس طرح کی سوچ کو 'مضحکہ خیز' قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہی طریقہ رہا تو جے آئی ٹی بنانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور مستقبل میں بھی ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ دفتر کی سیکیورٹی کے ذمہ دار ممکنہ کارروائی سے بچنے کے لیے حکمرانوں کو گمراہ کر سکتے ہیں لیکن فون ہیکنگ واقعی ایک بہت سنگین مسئلہ ہے۔

خیال رہے کہ پیر کو کچھ مزید آڈیو کلپس لیک ہوئے تھے جن میں مبینہ طور پر مسلم لیگ (ن) کے اعلیٰ رہنما ضمنی انتخابات کے بارے میں حکمت عملی تشکیل دے رہے تھے جو حال ہی میں سیلاب کی وجہ سے ملتوی ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم ہاؤس سے آڈیو لیک ہونا باعث تشویش ہے، مولانا فضل الرحمٰن

اس سے قبل ہفتہ کے روز ایک ریکارڈنگ منظر عام پر آئی تھی جس میں سنا گیا تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف ایک نامعلوم عہدیدار کے ساتھ ایک توانائی منصوبے کے لیے بھارتی مشینری کی درآمد میں سہولت فراہم کرنے کے امکان پر بات کر رہے تھے جو کہ ان کی بھتیجی مریم نواز کے داماد کی خواہش تھی۔

اتوار کے روز وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل اور قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے قانون سازوں کے استعفوں سے متعلق مزید ریکارڈنگز منظر عام پر آئیں، جنہیں پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔

لیک ہونے والی ریکارڈنگز میں ہوئی گفتگو، فون کی ریکارڈنگ کے بجائے بظاہر وزیر اعظم کے دفتر میں ہونے والی غیر رسمی بات چیت معلوم ہوتی ہے۔

اس کی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے تردید یا اس سے اختلاف نہیں کیا بلکہ اصرار کیا کہ اس سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ 'کچھ بھی غیر قانونی نہیں ہوا'۔

تبصرے (0) بند ہیں