توہین الیکشن کمیشن: عمران خان سمیت دیگر پارٹی رہنما ذاتی حیثیت میں دوبارہ طلب

28 ستمبر 2022
دوران سماعت پی ٹی آئی وکیل فیصل فرید نے کہا کہ الیکشن کمیشن پر اعتماد کے فقدان کا مسئلہ ہے—فائل/فوٹو: ڈان نیوز/ اے پی پی
دوران سماعت پی ٹی آئی وکیل فیصل فرید نے کہا کہ الیکشن کمیشن پر اعتماد کے فقدان کا مسئلہ ہے—فائل/فوٹو: ڈان نیوز/ اے پی پی

توہین الیکشن کمیشن کیس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے پیش نہ ہونے پر برہم الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے ایک بار پھر انہیں آئندہ سماعت پر 11 اکتوبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن نے 19 اگست کو سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی رہنما اسد عمر اور فواد چوہدری کو نوٹس جاری کیے تھے۔

ان میں سے 2 رہنماؤں کے تحریری جوابات کو 'غیر تسلی بخش' قرار دے کر مسترد کیے جانے کے بعد تینوں رہنماؤں کو 27 ستمبر کو الیکشن کمیشن کے سامنے ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان سمیت پی ٹی آئی رہنماؤں کو توہین الیکشن کمیشن کے نوٹسز جاری

الیکشن کمیشن سندھ کے رکن نثار درانی کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ کے سامنے پی ٹی آئی کے وکیل فیصل فرید نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ (راولپنڈی بینچ) نے الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری شوکاز نوٹسز کو معطل کر دیا ہے، بہتر ہوگا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے تک انتظار کیا جائے۔

انہوں نے واضح کیا کہ عمران خان الیکشن کمیشن سمیت تمام آئینی اداروں کا احترام کرتے ہیں، جواب میں خیبرپختونخوا سے الیکشن کمیشن کے رکن نے کہا کہ ان کے مؤکل بطور وزیر اعظم خدمات سرانجام دے چکے ہیں، ریاستی اداروں کا احترام ان کا فرض ہے۔

تاہم فیصل فرید نے کہا کہ الیکشن کمیشن پر اعتماد کے فقدان کا مسئلہ ہے، کیس کی سماعت کے التوا کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے نشاندہی کی کہ لاہور ہائیکورٹ اس معاملے پر 29 ستمبر کو سماعت کرے گی۔

بعدازاں الیکشن کمیشن نے کیس کی سماعت 11 اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے تینوں رہنماؤں کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کی ہدایت کی۔

مزید پڑھیں: توہین الیکشن کمیشن: عمران خان سمیت پارٹی رہنماؤں کا جواب غیرتسلی بخش قرار، ذاتی حیثیت میں طلب

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ الیکشن کمیش نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان، اسد عمر اور فواد چوہدری کو مختف جلسوں، پریس کانفرنسز اور متعدد انٹرویوز کے دوران الزمات عائد کرنے پر الیکشن کمیشن کی توہین اور ساتھ ہی عمران خان کو توہین چیف الیکشن کمشنر کا نوٹس بھی جاری کردیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے نوٹس میں عمران خان کے مختلف بیانات، تقاریر، پریس کانفرنسز کے دوران اپنے خلاف عائد ہونے والے بے بنیاد الزامات اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے خلاف استعمال ہونے والے الفاظ، غلط بیانات و من گھڑت الزامات کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان کو 30 اگست کو اپنے جواب کے ساتھ کمیشن میں پیش ہونے کا نوٹس جاری کیا تھا۔

ترجمان الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن نے عمران خان، اسد عمر اور فواد چوہدری کو توہین الیکشن کمیشن کے نوٹسز جاری کیے ہیں اور کہا گیا ہے کہ 30 اگست کو ذاتی حیثیت یا بذریعہ وکیل پیش ہوں۔

ترجمان نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کے تینوں رہنماؤں نے مختف جلسوں، پریس کانفرنسز اور متعدد انٹرویوز کے دوران الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر پر من گھڑت الزمات عائد کیے، جس سے ادارے کی ساکھ اور الیکشن کمشنر کی عزت نفس مجروح ہوئی۔

مزیدپڑھیں: عمران خان پر الیکشن کمیشن کی توہین کا الزام

نوٹس میں کہا گیا تھا کہ پیمرا کے ریکارڈ کے مطابق عمران خان نے 11 مئی، 16 مئی، 29 جون، 19، 20 جولائی اور 7 اگست کو اپنی تقاریر، پریس کانفرنسز اور بیانات میں الیکشن کمیشن کے خلاف مضحکہ خیز اور غیر پارلیمانی زبان استعمال کی، توہین آمیز بیانات دیے اور بے بنیاد الزامات عائد کیے جو براہ راست مرکزی ٹی وی چینلز پر نشر ہوئے۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو مخاطب کرکے نوٹس میں مزید کہا تھا کہ آپ نے 12 جولائی کو بھکر میں ہونے والے جلسے میں خطاب کیا جو اے آر وائی پر نشر ہوا اور ساتھ ہی اگلے دن روزنامہ ڈان میں شائع ہوا، جس میں آپ نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف توہین آمیز باتیں کیں اور ان پر من گھڑت الزامات عائد کیے۔

الیکشن کمیشن پر الزامات

واضح رہے کہ 11 مئی کو سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا الیکشن کمیشن پر اعتماد صفر ہوچکا ہے، سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ عمران خان کہہ چکے ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر مسلم لیگ (ن) میں کوئی عہدہ لے لیں، عزت دار طریقہ یہی تھا کہ الیکشن کمشنر خود استعفیٰ دے دیتے لیکن بدقسمتی سے اس کے برعکس ہوا۔

انہوں نے کہا تھا کہ اس الیکشن کمیشن میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی نمائندگی نہیں ہے، اس کا مطلب پاکستان کی 70 فیصد آبادی کی نمائندگی کا نہ ہونا ہے، الیکشن کمیشن مسلسل پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی قوت کے خلاف ایک پارٹی بنا ہوا ہے۔

اس کے بعد 16 مئی کو خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی میں پارٹی کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ سارے پاکستان کو پتا ہے کہ لوٹے کون ہیں، ساری دنیا کے سامنے وہ لوٹےہوئے ہیں لیکن الیکشن کمیشن ان کو بچانے کے لیے نکتے ڈھونڈ رہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ لوٹے الیکشن کمیشن سے بچ بھی گئے تو پاکستان کے عوام سے نہیں بچیں گے۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن لوٹوں کو بچانے کے لیے نکتے ڈھونڈ رہا ہے، عمران خان

پھر 29 جون کو سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری، اسد عمر اور شیریں مزاری نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) سکندر سلطان راجا کو فوری طور پر اپنے عہدے سے مستعفی ہونا چاہیے کیونکہ وہ اپنی ساکھ کھو بیٹھے ہیں۔

شیریں مزاری نے کہا تھا کہ مسئلہ یہ ہے کہ سی اسی سی آئین کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ جس طرح انہوں نے مخصوص نشستوں پر نوٹیفکیشن روکا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

عمران خان نے 18 جولائی کو عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس الیکشن کمشنر پر ہمیں کوئی اعتماد نہیں ہے، انہوں نے سینیٹ کا الیکشن کروایا، سپریم کورٹ نے اجازت دی کہ آپ سینیٹ کے ووٹ کی تصدیق کریں، الیکشن کمیشن اور تمام سیاسی جماعتوں کو معلوم ہے کہ سینیٹ کی خفیہ رائے شماری میں پیسہ چلتا ہے، اس الیکشن کمشنر نے اس پر عمل نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن اراکین مستعفی ہوجائیں، عمران خان

انہوں نے کہا تھا کہ جتنا پیسہ پچھلے سینیٹ کے انتخابات میں چلا اتنی تاریخ میں کبھی نہیں چلا، یوسف رضا گیلانی کا بیٹا پیسے دیتے ہوئے پکڑا گیا، اسی الیکشن کمشنر نے اس کی تحقیقات کی، سوا سال ہوگیا ہے اب تک کوئی ایکشن نہیں لیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ میں اب بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ اس ملک کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ صاف اور شفاف الیکشن کروائیں، اس الیکشن کمشنر کی موجودگی میں صاف اور شفاف انتخابات کبھی نہیں ہوسکتے، ملک کی سب سے بڑی جماعت کو اس الیکشن کمشنر پر اعتماد ہی نہیں ہے، الیکشن کمشنر کو استعفیٰ دینا چاہیے، آپ ایک جانب دار آدمی ہیں۔

لاہور میں کارکنوں سے ویڈیو خطاب میں 28 جولائی کو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا تھا کہ ہم نے 20 حلقوں میں ضمنی انتخابات صرف ان جماعتوں کے خلاف نہیں بلکہ انتظامیہ، ریاستی مشینری اور الیکشن کمیشن کے خلاف لڑے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے جس طرح یہ الیکشن کروایا ہے اس پر انہیں سزا دینی چاہیے، اس نے ہمیں ہرانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا اعلان

انہوں نے کہا تھا کہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن کی ایک پارٹی فیورٹ ہوتی ہے اور ان کے لیے کام بھی کرتے ہیں لیکن میں نے کبھی اس طرح کا الیکشن کمیشن نہیں دیکھا۔

عمران خان نے کہا کہ ‘یہ سکندر سلطان کی طرح کا بددیانت الیکشن کمشنر کبھی نہیں دیکھا اور یہ ڈسکہ کے ضمنی الیکشن سے شروع ہوا جہاں تقریباً 400 میں سے 20 پر ریٹرننگ افسر نے بے ضابطگی بتائیں، اس نے سارا الیکشن پھر سے کروایا’۔

گزشتہ ماہ 7 اگست کو فواد چوہدری نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ 2017 میں سپریم کورٹ نے ایک حکم جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ہمیں امید ہے کہ الیکشن کمیشن تمام سیاسی جماعتوں کی غیر ملکی فنڈنگ کا اکٹھا فیصلہ سنائے گا تاکہ لوگ موازنہ کر سکیں کہ سیاسی جماعتیں کیسے فنڈنگ کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ اس کے بعد پی ٹی آئی کے سردار اظہر نے سپریم کورٹ میں درخواست جمع کروائی کہ 19 سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کا آڈٹ ہونا چاہیے، پاکستان کے قانون کے تحت یہ آڈٹ ہر سال ہونا ہے لیکن الیکشن کمیشن نے اس پر عمل درآمد نہیں کیا، اس سے اندازہ لگالیں کہ الیکشن کمیشن نہ صرف جانب دار ہے بلکہ نااہل لوگوں پر بھی مشتمل ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں