سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ججوں کی تقرری کے معاملے پرجوڈیشل کمیشن کا اجلاس فوری طلب کرنے کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کو خط لکھ دیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے لکھے گئے خط میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں ججوں کی خالی اسامیوں پر نامزدگی کے لیے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس فوری طلب کیا جائے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ججوں کی تقرری کی سفارش کرنے والا جوڈیشل کمیشن 9 ارکان پر مشتمل ہے جبکہ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس اور 16جج ہوتے ہیں لیکن اس وقت سپریم کورٹ میں 5 ججوں کی اسامیاں خالی ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں کہا کہ جسٹس قاضی امین کو ریٹائرہوئے 187 دن، جسٹس گلزار کو 239 دن، جسٹس مقبول باقر کو 177دن، جسٹس مظہر عالم میاں خیل کو 77 دن اور جسٹس سجاد علی شاہ کو ریٹائر ہوئے 46 دن ہو چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’ججوں کی تعیناتی میں سنیارٹی کا اصول مقدم رکھا جائے‘ بار ایسوسی ایشن مؤقف پر قائم

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں 700 کے قریب اسٹاف ہے، عوام سپریم کورٹ پر بھاری رقم خرچ کرتے ہیں، سمجھ سے بالاتر ہے کہ سپریم کورٹ 30 فیصد کم استطاعت پر کیوں چل رہا ہے، خدشہ ہے کہ کہیں سپریم کورٹ غیر فعال ہی نہ ہو جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین انصاف کی فوری فراہمی پر زور دیتا ہے، آئین کی پاسداری سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ میں نے متعدد بار آپ (چیف جسٹس) آئینی ذمہ داری کے حوالے سے آگاہ کیا، اور اراکین کو اپنی ذمہ داری پوری کرنے دیں، آپ سے درخواست ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس فوری بلایا جائے تاکہ سپریم کورٹ میں ججوں کی نامزدگی کی جاسکے۔

خیال رہے کہ جوڈیشل کمیشن کے 28 جولائی کو منعقدہ اجلاس میں سپریم کورٹ میں نئے ججوں کی تعینات کا معاملہ حل نہیں ہوسکا تھا اور کسی جج کی نامزدگی عمل میں نہیں آئی تھی۔

جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود دونوں جو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے 9 ارکان میں سے ہیں، انہوں نے کمیشن کے 28 جولائی کے اجلاس کے فوراً بعد بھی خطوط لکھے تھے، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اجلاس نے ججوں کو ترقی دینے کے لیے نامزدگیوں کو مسترد کردیا تھا۔

16 ستمبر کو ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ دونوں ججوں نے اپنے خط میں حیرت کا اظہار کیا کہ جب سپریم کورٹ کا ایک تہائی سے زیادہ ججوں کی آسامیاں خالی ہیں تو کیا ججوں کو فیصلہ کردہ مقدمات کی تعداد کے لیے خود کو سراہنا چاہیے اور یہ کہ مکمل عدالت بلاشبہ کہیں زیادہ مقدمات کا فیصلہ کرتی'۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں 5 ججوں کی تعیناتی چیف جسٹس کی حمایت کے باوجود کثرت رائے سے مسترد

یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں نامزدگیوں کے لیے موسم گرما کی تعطیلات سے پہلے اور بعد میں بار بار چیئرمین جوڈیشل کمیشن آف پاکستان سے کمیشن کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔

دونوں سینئر ججوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جلد اجلاس بلانے پر زور دینے کے لیے ہم نے کہا تھا کہ خالی اسامیوں کو پُر نہ کرنا آئینی ذمے داری سے لاپرواہی ہے لیکن اس سب کا کوئی فائدہ نہیں ہوا'۔

15 ستمبر کو ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی جانب سے حال ہی میں وفاقی حکومت اور بار کے کردار کے بارے میں تحفظات کے اظہار کے بعد بار رہنما اپنے اس مؤقف پر قائم ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی میں سنیارٹی کا اصول سب سے بنیادی معیار ہونا چاہیے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کے خطاب پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ججوں کی تقرری سنیارٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیشہ میرٹ پر کی جانی چاہیے اور اس کے لیے انتخاب کا ایک طے شدہ معیار ہونا چاہیے۔

یاد رہے کہ 28 جولائی کو ڈان کی رپورٹ کے مطابق جوڈیشل کونسل نے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے نامزد 5 ججوں کی تعیناتی کثرت رائے سے مسترد کردی تھی۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطابندیال کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہوا تھا جہاں چیف جسٹس کے نامزد کسی بھی جج کو سپریم کورٹ لانے کی منظوری نہ ہو سکی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے دو ججز کا چیف جسٹس کی حالیہ تقریر پر اظہار مایوسی

جوڈیشل کمیشن نے زیر غور تمام ناموں کو 4 کے مقابلے میں 5 کی کثرت رائے سے مسترد کردیا تھا۔

اجلاس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود، اٹارنی جنرل پاکستان اشتر اوصاف، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور نمائندہ بار اختر حسین نے مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں