ایک زمانہ تھا جب لوگ فوٹو اسٹوڈیو جاکر تصاویر بنوایا کرتے تھے، ان دنوں فوٹو گرافر بھی اتنا اہم تھا جتنا ٹیلی فون ایکسچینج کا فون آپریٹر ہوا کرتا تھا۔ شہر کے سارے لوگ فون ایکسچینج کے آپریٹر سے بناکر رکھتے تھے تاکہ لوکل اور شہر سے باہر کے نمبر کی کال جلد مل جائے۔ فوٹو گرافر اور آپریٹر کی طرح بہت سارے کاموں سے وابستہ لوگوں کے ٹھاٹھ باٹھ ہوا کرتے تھے۔

اُن دنوں بھی ایک غلیظ طرزِ عمل یہ ہوا کرتا تھا کہ مخالفین کی نجی زندگیوں کی تصاویر بنواکر یا دیگر ممالک کے میگزین کی شائع شدہ تصاویر پر مخالف کی تصویر لگا کر بلیک میلنگ کا کام کیا جاتا تھا۔

ترقی کرتی ٹیکنالوجی نے بڑے بڑوں کو فارغ کردیا۔ کیمرے صرف فون تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ اپنا سائز کم کرتے کرتے پین اور بٹن کے سائز تک پہنچ گئے۔ اب یہ عالم ہے کہ نہ بیڈ روم محفوظ ہے نہ ہی کسی گارمنٹس کی دکان کا چینجنگ روم۔

اب تو آپ کے ہاتھ میں جو موبائل فون ہے وہی آپ کا سب سے بڑا جاسوس ہے۔ کوئی ہیکر چاہے تو جو کچھ بول چال ہوتی ہے وہ نہ صرف سن سکتا ہے بلکہ ریکارڈ بھی کرسکتا ہے۔ جس طرح طیاروں کی لوکیشن معلوم کرنا آسان ہوگیا ہے اسی طرح کسی بھی موبائل استعمال کرنے والے صارف کا پتا لگانا بھی اب مشکل نہیں۔ یہی سبب ہے کہ دنیا کی بڑی ٹینکالوجی کمپنیاں بیشتر ممالک سے بھی زیادہ دولت مند بن چکی ہیں، جبکہ سوشل میڈیا کمپنیاں تو ڈیجیٹیل غلامی کے عالمی مراکز بن گئی ہیں۔

اس پوری تمہید کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان کا سیاسی منظرنامہ اس جدید ٹیکنالوجی کا کچھ زیادہ ہی شکار ہوچکا ہے۔ حال ہی میں موجودہ وزیرِاعظم شہباز شریف اور سابق وزیرِاعظم عمران خان کی کچھ آڈیو لیکس منظرِ عام پر آئی ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں اطراف سے ان لیکس کی تردید کرنے کے بجائے اس کی وضاحت دی جارہی ہیں۔

عمران خان کی جو آڈیو لیکس سامنے آئی ہیں ان میں اس امریکی سازش سے متعلق بات ہے جس کی بنیاد پر وہ اپنی پوری مہم کو آگے لے کر چل رہے تھے، لیکن اگر یہ تمام گفتگو ٹھیک ہے، جیسا کہ اب تک اس کی تردید نہیں کی گئی ہے تو پھر یقیناً عمران خان صاحب کو سیاسی اعتبار سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اس سے یہ بھی سوال پیدا ہوا ہے کہ ایک سابق وزیرِاعظم اپنے سیاسی فائدے کے لیے کس طرح امریکا سے تعلقات خراب کرنے کی سازش کررہے تھے۔ جس دن اس آڈیو کا پہلا حصہ سامنے آیا، اسی دن عمران خان نے یہ کہہ کر ساری گفتگو کی تصدیق کردی کہ آڈیو ہی نہیں سائفر بھی لیک کردیا جائے۔

اس آڈیو لیک کے بعد ایک طرف سوشل میڈیا پر متحرک تحریک انصاف کے حامی پریشان ہیں کہ کس طرح اس پوری صورتحال کا دفاع یا تردید کی جائے تو دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کو اچھی خبریں مل رہی ہیں۔ پہلی یہ کہ اسحٰق ڈار وطن واپس آگئے اور اس بار صدر عارف علوی بیمار ہوکر چھٹی پر نہیں گئے بلکہ خود ہی اسحٰق ڈار سے حلف لیا۔ اسی طرح اسلام آباد ہائی کورٹ نے مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر کو ایون فیلڈ کیس میں احتساب عدالت کی جانب سے دی گئی سزا بھی کالعدم قرار دے دی، جبکہ اب میاں نواز شریف کی واپسی کے لیے بھی تیاریوں پر کام شروع کردیا گیا ہے۔

جس دن عمران خان کی آڈیو لیک کی گئی اس سے ایک دن پہلے وزیرِاعظم شہباز شریف وزیرِاعظم ہاؤس میں پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ ان کی آڈیو لیک سامنے آنے کے بعد باضابطہ طور پر وزیرِاعظم کی یہ پہلی پریس کانفرنس تھی۔ سوال جواب کا مرحلہ شروع ہوا تو ان سے پہلا سوال ہی اس آڈیو لیک سے متعلق ہوا اور انہوں نے اس میں ہونے والی گفتگو کی تصدیق کی اور جو باتیں سامنے آئیں اس کی مزید وضاحت کرکے خود کو ’کلیئر‘ کرنے کی کوشش کی۔

وزیرِاعظم کی پریس کانفرنس آدھا گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوئی جبکہ صحافی دوست دیے گئے وقت سے آدھا گھنٹہ پہلے ہی پہنچ چکے تھے، اس لیے پریس کانفرنس سے پہلے گپ شپ کا وقت کافی تھا۔ بہت ساری باتیں معلومات میں اضافہ کر رہی تھیں۔ کس طرح حساس عمارتوں میں بگنگ ہوتی ہے، ہمارے پاس جو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ہے وہ کتنی مؤثر ہے، ایک کم پڑھا لکھا ہیکر کس طرح کہاں داخل ہوتا ہے، یہی ہمارا موضوع تھا۔

پاکستانی میڈیا جس خوف کا شکار ہے، ان حالات میں تمام معلومات چاہیں بھی تو عام قارئین تک نہیں پہنچ سکتیں، اس لیے یا تو خاموشی یا پھر اشاروں کنایوں میں ہی بات ہوسکتی ہے۔

وزیرِاعظم ہاؤس کی 3 کے قریب آڈیو لیکس ایک ہی اکاؤنٹ سے سامنے آئیں اور یہ اکاؤنٹ ستمبر میں ہی بنایا گیا تھا۔ سوشل میڈیا پر یہ بھی دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ موجودہ حکومت کے دوران 100 گھنٹے کی بات چیت ریکارڈ کی گئی ہے جو ایک بڑی رقم کے عوض فروخت کے لیے موجود ہے۔

اسی طرح اب یہ بات بھی عام ہوچکی ہے کہ عمران خان کی بند کمرے کی ویڈیو بھی موجود ہے جسے افشا کرنے کے لیے مناسب وقت کا انتظار کیا جا رہا ہے۔

ایک خاتون وزیر نے ساتھی وفاقی وزیر سے ایوانِ صدر میں پوچھ ہی لیا کہ ’آخر اس ویڈیو میں ایسا کیا ہے جو ہر طرف اس کا چرچہ ہے؟‘ یہ اس وقت کی بات ہے جب حکومتی اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد اسحٰق ڈار کی حلف برداری کی تقریب میں اکٹھی ہوئی تھی۔ انہیں دوسرے وفاقی وزیر نے مسکرا کر جواب دیا کہ ’محترمہ آپ ایک باعزت خاتون وزیر ہیں، اس ویڈیو کی معلومات نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہیں‘۔

پاکستان میں اینٹلی جنس بیورو وزیرِاعظم کے ماتحت ہے اور وہ ملک بھر میں ہونے والی اہم معلومات روزانہ اور کبھی کبھی گھنٹے گھنٹے میں بھی وزیرِاعظم کو پہنچاتا ہے، جبکہ دیگر اہم ایجنسیاں پاکستان کی فوج کے ماتحت ہیں۔ وہ حاصل ہونے والے معلومات اپنے اپنے سربراہوں کو بھیجتی ہیں۔ جبکہ دیگر ممالک کی ایجنسیاں بھی ملک کے اندر موجود لوگوں کی معرفت کام کررہی ہوتی ہیں اور اس کا اچھا خاصہ معاوضہ مقامیوں کو مل جاتا ہے۔

آڈیو ریکارڈ کرنا اور اس کے بعد اسے افشا کرنا سیاسی اور مالی مقاصد حاصل کرنے کے لیے یا لوگوں کو اپنی حدود تک محدود رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ملک کی سیاسی جماعتوں اور اہم سویلین اداروں میں ملک کی ایجنسیاں اپنے لوگ داخل کرتی ہیں تاکہ وہ لمحہ بہ لمحہ ہونے والی سرگرمیوں سے واقف رہیں لیکن اس بار جو تواتر کے ساتھ آڈیو لیک ہورہی ہیں اس نے بہت سارے سوالات پیدا کردیے ہیں۔

خصوصاً ایک سوال یہ بھی کہ کیا ہمارے وزیرِاعظم ہاؤس میں ہونے والی گفتگو کو کچھ سال سنبھال کر بھی نہیں رکھا جاسکتا، یا کوئی اور ہے جس نے وزیرِاعظم ہاؤس تک رسائی حاصل کرلی ہے اور ریکارڈنگ کرکے اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہا ہے؟ یہی سبب تھا کہ وزیرِاعظم شہباز شریف اپنی پریس کانفرنس میں کہہ رہے تھے کہ ہم پر اب کون اعتبار کرے گا؟

عمران خان نے جس سائفر پر اپنے خلاف رواں سال مارچ میں آنے والی تحریک عدم اعتماد کو امریکی سازش قرار دیا تھا، اب سامنے آنے والی آڈیو نے اس بیانیے کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ تحریک انصاف کے پاس فی الحال اس آڈیو لیک کا کوئی مناسب جواب نہیں کہ ایک وزیرِاعظم اور اس کا پرنسپل سیکریٹری کس طرح سیاسی مفادات کے لیے ملک کی خارجہ پالیسی کو نقصان پہنچا رہے رہیں۔

اس میں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایک وزیرِاعظم اور اس کے پرنسپل سیکرٹری کے درمیان ہونے والی گفتگو مقامی ایجنسی نے ریکارڈ کی یا کوئی ہیکر وزیرِاعظم ہاؤس کے الیکٹرانک آلات کے اندر گھس گیا جس نے یہ سب کچھ ریکارڈ کرلیا؟

اگر مقامی ایجنسی نے ریکارڈنگ کی تو کیا موجودہ حکومت نے یہ گفتگو اس ایجنسی سے حاصل کی اور ایک مناسب وقت کا انتظار کرکے اس وقت افشا کی جب وزیرِاعظم شہباز شریف کی آڈیو کو سامنے لایا گیا؟ اس حوالے سے اگر تحقیقات ہوئیں تب بھی شاید اس سوال کا جواب سامنے نہ آسکے۔

اطلاعات ہیں کہ اب عمران خان اکتوبر کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کریں گے، کیونکہ اکتوبر گزرنے کی صورت میں ان کے پاس اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے اور مستقل دھرنا دینا مشکل ہوجائے گا۔ سبب یہ ہے کہ اسلام آباد میں اکتوبر کے بعد سردیاں بڑھ جاتی ہیں اور ان ایّام میں کارکنوں کو مستقل بٹھانا مشکل ہوجائے گا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی پہلے بھی اپنی حکومتوں میں اس طرح کے دھرنوں کو مینیج کرچکی ہیں، حالانکہ تب اور اب اسٹیبلشمنٹ کے رویے میں واضح فرق ہے۔

عمران خان کا مطالبہ ہے کہ جلد از جلد انتخابات کرادیے جائیں اور اس کے بعد آرمی چیف کی تقرری نئی حکومت آکر کرے، لیکن یہ بھی ممکن نہیں لگتا کیونکہ اس وقت سندھ اور بلوچستان کے بیشتر علاقے زیرِ آب ہیں۔ سیلاب زدگان کی بحالی ایک بہت بڑا چیلینج ہے اور ملک کی معاشی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے جبکہ اکتوبر کے بعد ملک کے شمالی علاقوں میں انتخابات جیسی سرگرمیاں ممکن نہیں ہوں گی۔ اس لیے معاملہ اپریل تک چلا جائے گا اور حکومت نومبر کے اختتام تک آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ حل کرلے گی، جبکہ نواز شریف کو بھی عدالتوں سے ریلیف مل جائے گا اور رواں سال کے اختتام سے پہلے ان کی واپسی کے امکانات بھی لگ رہے ہیں۔

اتحادی حکومت کے اہم وزرا کو یہ شکایت رہی ہے کہ بیوروکریسی کا ایک بڑا حصہ ان کی بات کو ٹالتا رہتا ہے۔ ایک اہم وزیر سے ان کے دفتر میں گپ شپ کے دوران میں نے اس کا سبب پوچھا تو جواب ملا کہ ’جس کو معلوم ہو کہ ہماری کرسی کی مدت ڈیڑھ سال ہے تو وہ ٹال مٹول ہی کرے گا‘۔

لیکن حالیہ عدالتی فیصلے اور عمران خان کی آڈیو لیکس نے حکومت کو مزید طاقتور کردیا ہے۔ اسحٰق ڈار نے آتے ہی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کردیا ہے اور آنے والے دنوں میں وہ اپنے فیصلوں کے ذریعے اپنی موجودگی کا مزید احساس دلائیں گے۔ اس طرح عوام کو شاید کچھ ریلیف تو مل جائے، مگر ملک کے معاشی اور عالمی حالات اتنے اچھے نہیں کہ عوام کو تکلیف دہ شب و روز سے جلد چھٹکارا مل سکے۔

عمران خان کے پاس اب ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اکتوبر میں آر یا پار کریں، لیکن حکومت نے سابق وزیرِاعظم کے پرنسپل سیکریٹری کو چھیڑنے کے بجائے عمران خان کو کمزور کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت انہیں گرفتار کرنے کے بجائے عمران خان کو الیکشن کمیشن سے توشہ خانہ کیس میں نااہل دیکھنا چاہتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ عمران خان ایک نئی آڈیو لیکس کی کہانی سنا رہے ہیں جس میں بقول ان کے چیف الیکشن کمشنر کے حوالے سے بات چیت کی گئی ہے۔

حکومت نے عمران خان کے اسلام آباد کی طرف ممکنہ لانگ مارچ کی صورت میں پہلے تو انہیں روکنے اور پھر اس مبیّنہ ویڈیو کو منظرِعام پر لانے کا فیصلہ کیا ہے جس کی بہت زیادہ بازگشت ہے۔

گزشتہ دنوں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے ایک نجی ٹی وی پروگرام میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ وہ یہ ویڈیو دیکھ چکے ہیں، یعنی دیواروں کے کان ہی نہیں آنکھیں بھی ہوتی ہیں اور ان آنکھوں کی کارروائی کے نتیجے میں کسی کے سامنے آنکھ اٹھانا مشکل ہوجاتا ہے۔

اصولی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کی سیاست کو نہ اخلاقی طور پر درست قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ پاکستان کے لیے یہ سود مند ہے۔ نجی زندگی کے معاملات جب بازار میں آجائیں تو پھر کسی کی عزت سلامت نہیں رہتی، اس طرزِ عمل کو نہ روکا گیا تو کسی کی بھی عزت سلامت نہیں رہے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں