لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں
لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں

وزیرِاعظم ہاؤس میں ہونے والی گفتگو کی ’ہیک‘ (یا لیک ہونے والے) آڈیو کلپس نے پہلے سے ہی تقسیم کا شکار معاشرے میں مزید سنسنی پیدا کردی ہے۔ اگر بیانات اور سوشل میڈیا پوسٹ کو دیکھا جائے تو ان آڈیو کلپس پر آنے والے ردِعمل کی بنیاد بہت حد تک سیاسی یا جماعتی تعصب پر ہے۔

ملک میں رہ جانے والے مٹھی بھر غیر جانبدار مبصرین نے آڈیو لیکس کو اہم ترین سیاسی کردار کے حوالے سے موجود خیالات کی تصدیق کے طور پر دیکھا۔ ان آڈیو لیکس میں موجودہ وزیرِاعظم شہباز شریف، سابق وزیرِاعظم عمران خان اور ان کے معاونین کے درمیان ہونے والی گفتگو شامل ہے۔

تاہم قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ ایک جانب جہاں سیکڑوں گھنٹوں کی ٹی وی نشریات اور اخبارات کے طویل کالم اس معاملے کے لیے وقف کیے گئے وہاں شاید ہی کسی نے ایک بنیادی سوال اٹھایا۔

مزید پڑھیے: دیواروں کے صرف کان ہی نہیں آنکھیں بھی ہوتی ہیں!

سب ہی اس حوالے سے متفق نظر آتے ہیں کہ کسی ماہر ہیکر نے ایک ایسے ڈیٹا بیس کو ہیک کیا جہاں گھنٹوں پر محیط اس قسم کی ریکارڈنگ محفوظ تھیں اور پھر اس نے گیگا بائٹس کے حساب سے ان ریکارڈنگز کو ڈاؤن لوڈ کرلیا۔ ’ہیکر‘ کی جانب سے آن لائن کیا جانے والا دعوٰی بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

لیکن شاید کسی نے بھی اس بارے میں بحث نہیں کی کہ آخر کس کے پاس ملک کے وزیرِاعظم کے دفتر کو بگ کرنے اور وہاں ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ کرنے اور محفوظ رکھنے کا آئینی اور قانونی اختیار ہے۔ اس بنیادی نکتے پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ اس کی 2 یا اس سے زائد وجوہات ہوسکتی ہیں۔

یا تو ہیک کیا گیا مواد اتنا دلچسپ ہے کہ اس وقت وہی غالب ہے اور ایک بار جب اس سے پیدا ہونے والا جوش و خروش کم ہوگا تو پھر دیگر متعلقہ مسائل پر توجہ دی جائے گی۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وزیرِاعظم ہاؤس میں بگ لگانے والوں نے اس معاملے پر میڈیا انکوائری کی ’حوصلہ شکنی‘ کی ہو۔

وجہ کچھ بھی ہو لیکن میڈیا نے خود کو اور ساتھ ہی اپنے صارفین کو بھی مایوس کیا ہے کیونکہ یہ اس اہم بحث کو شروع کرنے کا ایک موقع تھا۔ سابق وزیرِاعظم کی جانب سے اکسائے جانے کے باوجود ’نیوٹرلز‘ اب تک تو غیر جانبدار رہنے کے لیے پُرعزم ہیں، کیا معلوم اس طرح کوئی مثبت چیز حاصل ہو ہی جاتی۔

وہ مثبت چیز ہمارے نظام میں اصلاحات بھی ہوسکتی تھیں جن کی بنیاد ایئر چیف مارشل ذوالفقار علی خان کی رپورٹ میں شامل تجاویز کی نظرثانی شدہ صورت ہوتی۔ اس رپورٹ کا حکم بے نظیر بھٹو نے بطور وزیرِاعظم دیا تھا تاکہ ملکی سیاست میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردار پر روشنی ڈالی جائے۔ بے نظیر بھٹو کو پیش کیے جانے کے بعد سے یہ رپورٹ کسی شیلف کی زینت بن گئی ہے۔ اس رپورٹ کے پیش کیے جانے کے کچھ عرصے بعد ہی بے نظیر بھٹو کو بھی ان کے منصب سے ہٹا دیا گیا تھا۔

ہم دوبارہ آڈیو لیکس پر سامنے آنے والے ردِعمل پر آتے ہیں۔ اس معاملے میں دلچسپی رکھنے والے کسی بھی فرد نے انہیں بار بار سنا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ کسی نے بھی اس معاملے پر توجہ نہیں دی جس کا ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں یعنی یہ گفتگو کس نے ریکارڈ کی ہوگی؟

مزید پڑھیے: سول ملٹری تعلقات میں بہتری کے لیے یہ ٹھیک وقت کیوں ہے؟

اگر ان کا مقصد کسی سیاستدان کی مقبولیت کو نقصان پہنچانا اور اگلے سال ہونے والے عام انتخابات میں ان کے امکانات کو خطرے میں ڈالنا تھا تو یہ بُری طرح ناکام ہوا۔ اس قدر تقسیم کے ماحول میں، ایسی آڈیو لیکس شاذ و نادر ہی کارآمد ثابت ہوتی ہیں اور جن افراد کو ہدف بنایا جاتا ہے ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔

ففتھ جنریشن وارفیئر کے سرکاری ماہرین کی طرف سے بہت توجہ سے تیار کی گئی دوسرے درجے کی قیادت اور ان سیاستدانوں کے سوشل میڈیا جنگجو/ٹرول نئی صورتحال میں خود کو بہت جلدی اور بہترین طریقے سے ڈھال لیتے ہیں۔ یوں ان کے زیرِ اثر حامی ان کے گوئیبلز جیسے پراپیگنڈے سے محسور ہوجاتے ہیں۔

یہ لاکھوں متعصب لوگ ہی سیاستدانوں کے لیے اہمیت رکھتے ہیں نہ کہ وہ مٹھی بھر غیر جانبدار مبصرین۔ وہ مبصرین جب عوام میں اپنی آزادانہ رائے کا اظہار کرنے کی ہمت کرتے ہیں تو ان پر ٹرولز چھوڑ دیے جاتے ہیں۔

ففتھ جنریشن وارفیئر میں ’متبادل حقائق‘ کی ہی اہمت ہوتی ہے اور جو لوگ اس کام میں مہارت رکھتے ہیں اور ’کھیلنا‘ جانتے ہیں اور وہ کوئی بھی جنگ جیت سکتے ہیں۔ جو لوگ سچائی کے بیان میں کنجوسی کرتے ہیں انہیں ہیرو بنادیا جاتا ہے جبکہ باقی ہر چیز کو بے کار ثابت کیا جاتا ہے۔

اس امر کو بیان کرنے کا اور کوئی طریقہ نہیں ہے کہ آخر ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں لوگ کسی ایسی بات کو سننے کے لیے کیسے تیار ہوگئے جس کے بارے میں غیر جانبدار مبصرین جانتے تھے کہ وہ ایک دھوکا ہے اور یہ کہ حکومت تبدیل کرنے کے لیے کوئی بیرونی سازش نہیں ہوئی۔

اب ہیک شدہ آڈیو سے بھی اس بات کی تصدیق ہوچکی ہے، لیکن اس بیانیے کو حقیقت سمجھنے والوں پر اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ یقین کیجیے کہ اس حمایت کو کمزور یا ختم کرنے کے لیے اس سے کہیں زیادہ کوششوں کی ضرورت ہوگی۔ دنیا بھر میں ایسے کئی حکمران ہیں جنہوں نے ’مابعد سچائی‘ دور میں ’متبادل حقائق‘ کی مدد سے شروع کی گئی عوامی حمایت کا فائدہ اٹھایا ہے۔

ان کے سخت ترین سیاسی مخالفین کو بھی اگر اقتدار میں آنے کا موقع دیا جائے تو وسائل کی کمی سے دوچار اس دنیا میں انہیں معجزے کردکھانے کی ضرورت ہوگی تاکہ متبادل حقائق سے بنے مضبوط قلعے کو زمیں بوس کیا جاسکے۔

لیکن ہمارے معاملے میں تو ان آڈیو سے پتا چلتا ہے کہ سیاسی مخالفین بھی حکومت میں رہتے ہوئے اپنے اختیارات کا استعمال کرکے ذاتی ایجنڈوں کو آگے بڑھانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگر کوئی چیز ان کے ہاتھ باندھتی بھی ہے تو وہ اصول نہیں بلکہ پکڑے جانے کا خوف اور یہ بات ہوتی ہے کہ جو کام کریں گے اس کا ردِعمل کیسا آئے گا۔

مزید پڑھیے: ہم تعلیمی اداروں کو ناصر باغ نہ بنائیں تو وہی بہتر ہے

ملک کی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور انتہائی پُرامید نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو بھی یہ ابھی خطرے سے باہر نہیں نکلی ہے۔ لہٰذا ہم اس معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے ایک نیا وزیرِ خزانہ لے آئے ہیں۔ دوسری جانب جس شخص کو یہ کام سونپا گیا تھا کہ وہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچائے، کامیابی کے باوجود اسے تبدیل کردیا گیا ہے۔

ہمارے نئے وزیرِ خزانہ اس بحران سے نکلنے کے لیے محفوظ راستے کی منصوبہ بندی کے لیے ایک دن میں درجن بھر میٹنگ کر رہے ہیں۔ یہ بحران ہے بھی سنگین جو تیزی سے گرتے ہوئے روپے، آسمان کو چھوتی مہنگائی اور کرنٹ اکاؤنٹ کے غیر معمولی خسارے میں ظاہر ہورہا ہے۔ لیکن مجھے بتایا گیا ہے کہ ان سب چیزوں کے باوجود انہوں نے مبیّنہ طور پر ایک بڑی سرکاری رہائش گاہ کے ہونے کو ترجیح بنالیا ہے۔

آپ ان سب سے مایوس نہ ہوں۔ آج صرف ایک چیز ہے جو مجھے افسردہ کرتی ہے اور وہ یہ کہ اس سال جولائی اور اگست میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے بعد تقریباً سوا 3 کروڑ بے گھر افراد ابھی تک اپنی زندگیوں کی تعمیرِ نو شروع کرنے سے قاصر ہیں۔

ہم تیسری دنیا کے ملک ہیں۔ اپنے لوگوں کی سخاوت، غیر ملکی مدد اور بہترین حکومتی کوششوں کے باوجود ہم اپنے ہر اس ہم وطن تک نہیں پہنچ سکتے جس کی زندگی موسمیاتی تباہی کے نتیجے میں اجڑ گئی ہے۔ باقی سب کچھ تو معمولی نوعیت کی چیزیں نظر آتی ہیں۔


یہ مضمون 02 اکتوبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں