وزیراعظم ہاؤس سے لیک ہونے والی آڈیوز کی تحقیقات کا باقاعدہ آغاز آج سے ہوگا

06 اکتوبر 2022
توقع ہے کہ انکوائری کمیٹی اس بات پر بھی بات کرے گی کہ بگنگ سائبر لیکس سے کس طرح مختلف ہے— فائل فوٹو: اے پی پی
توقع ہے کہ انکوائری کمیٹی اس بات پر بھی بات کرے گی کہ بگنگ سائبر لیکس سے کس طرح مختلف ہے— فائل فوٹو: اے پی پی

وزیر اعظم آفس میں ہونے والی گفتگو کے آڈیو کلپس لیک کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی اعلیٰ سطح کی کمیٹی آج (جمعرات) سے باضابطہ طور پر اپنا کام شروع کر رہی ہے، جس کے سامنے ایک اہم سوال یہ ہوگا کہ لیکس کا ماخذ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق توقع ہے کہ انکوائری کمیٹی اس بات پر بھی بات کرے گی کہ بگنگ سائبر لیکس سے کس طرح مختلف ہے۔

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی کا اہم اجلاس بدھ کو ہونا تھا لیکن اسے ایک روز آگے بڑھا دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: آڈیو لیکس سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے وزیراعظم ہاؤس کی مکمل جانچ پڑتال

وزارت داخلہ کے ذرائع نے بتایا کہ جب کہ تمام حساس سرکاری دفاتر میں ڈی بگنگ کی مشقیں باقاعدگی سے کی جاتی تھیں لیکن پھر بھی اس بات کے امکانات موجود تھے کہ عمران خان کے ساتھ ساتھ موجودہ وزیراعظم شہباز شریف دور میں بات چیت ریکارڈ کرنے کے لیے موبائل فون پر مبنی کچھ جدید ایپلی کیشنز کا استعمال کیا گیا۔

آئی ٹی اور ٹیلی کام کے وزیر سید امین الحق نے صحافیوں کو بتایا کہ اس معاملے کے دو مضمرات ہیں، سیاسی اور تکنیکی، ہم پہلی میٹنگ میں تکنیکی پہلو پر بات کریں گے، جس میں اس بات کا تعین کرنا بھی شامل ہے کہ یہ بگنگ تھی یا سائبر سیکیورٹی کی خلاف ورزی تھی۔

وزیر نے کہا کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے تکنیکی ماہرین کے اس معاملے پر ان پٹ دینے کے بعد تفصیلات واضح ہو جائیں گی۔

مزید پڑھیں: قومی سلامتی کمیٹی اجلاس: آڈیو لیکس کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دینے کی منظوری

30 ستمبر کو کابینہ ڈویژن کی نوٹیفایڈ کردہ کمیٹی کو وزیر اعظم آفس میں سائبر سیکیورٹی کی خلاف ورزی کی تحقیقات کی نگرانی اور جائزہ لینے، موجودہ سائبر سیکیورٹی پروٹوکول کا جائزہ لینے اور فول پروف سیکیورٹی سسٹم تیار کرنے کے لیے فوری اقدامات تجویز کرنے کے لیے 7 روز کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔

کمیٹی میں پانچ وزرا کے علاوہ انٹر سروسز انٹیلی جنس، انٹیلی جنس بیورو کے سربراہان، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے تکنیکی ماہرین، فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی اور نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی سیکیورٹی بورڈ (این ٹی آئی ایس بی) کے سیکریٹری شامل ہیں۔

این ٹی آئی ایس بی کابینہ ڈویژن کے اندر موجود ہے اور اس کے کاموں میں مسلح افواج اور تمام سول محکموں میں آئی ٹی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے پالیسی بنانا اور جاری کرنا، نیز ملک میں قومی سلامتی سے منسلک آئی ٹی خدمات کا وقتاً فوقتاً جائزہ لینا شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آڈیو لیکس پر جے آئی ٹی تشکیل، قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب

مبصرین کا خیال ہے کہ این ٹی آئی ایس بی کی موجودگی میں خصوصی کمیٹی کی تشکیل غیر ضروری تھی۔

پیپلز پارٹی سے موسمیاتی تبدیلی کی وزیر شیری رحمٰن اور جے یو آئی (ایف) کے وزیر مواصلات اسد محمود بھی بظاہر اتحادی شراکت داروں کے نمائندوں کے طور پر اس کمیٹی کا حصہ ہیں، کیونکہ ان کی وزارتوں کا لیکس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں