دورانِ مقدمہ بیان کردہ سچ سے بعد میں انکار نہیں کیا جاسکتا، سپریم کورٹ

08 اکتوبر 2022
سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ ہر کیس کا فیصلہ اس کے اپنے حقائق اور حالات کے مطابق کرنا ہوگا—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ ہر کیس کا فیصلہ اس کے اپنے حقائق اور حالات کے مطابق کرنا ہوگا—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی مقدمے یا کارروائی کے دوران کسی شخص کو اس سچ سے انکار یا لاتعلق ہونے کی اجازت نہیں ہے جس کا اس نے آغاز میں اعتراف یا تصدیق کی ہو۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس محمد علی مظہر نے ایک کیس کے دوران مشاہدہ کرتے ہوئے کہا ’درحقیقت یہ اصول دھوکہ دہی کے عنصر کو ختم کرنے اور انصاف کو یقینی بنانے کی غرض سے مساوات اور منصفانہ ذہنیت پر طے کیا گیا ہے‘۔

جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر 3 رکنی بینچ کا حصہ تھے جس میں جسٹس امین الدین خان بھی شامل تھے، اس بینچ نے سندھ سروس ٹربیونل کراچی کی جانب سے علی بخش شیخ کی درخواست خارج کرنے کے خلاف ان کی اپیل پر سماعت کی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے واضح کیا کہ درخواست گزار نے خود عدالت عظمیٰ میں دائر سابقہ کیس میں اپنی صحیح تاریخ پیدائش ظاہر کی تھی اس لیے اب اس مرحلے پر وہ اپنی صحیح تاریخ پیدائش یا اپنے ہی بیان سے انکار نہیں کر سکتے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: گریڈ 8 سے 17 کے ملازمین کی مشروط بحالی کی تجویز

درخواست گزار کو 1990 میں اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل مقرر کیا گیا تھا اور ان کے مطابق سروس بک میں ان کی تاریخ پیدائش یکم جنوری 1961 درج کی گئی تھی لیکن عارضی سنیارٹی لسٹ میں ان کی تاریخ پیدائش یکم جنوری 1958 ظاہر کی گئی تھی۔

علی بخش شیخ نے محکمہ داخلہ کے سامنے محکمانہ اپیل دائر کی تھی لیکن 31 دسمبر 2017 کو ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ مقرر کرتے ہوئے ایک نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔

انہوں نے اپنی شکایت متعلقہ وزیر کو بھی پیش کی اور ان کے مطابق محکمہ قانون کی رائے مانگی گئی، اس کے بعد، 2019 میں یہ نوٹیفکیشن واپس لے لیا گیا، تاہم ہوم سیکریٹری نے 2020 میں نوٹیفکیشن کو پھر سے التوا میں ڈال دیا، بعد ازاں ٹریبیونل کے سامنے ان کی سروس اپیل بھی قبول نہیں کی گئی۔

درخواست گزار کا بنیادی موقف یہ تھا کہ سندھ سول سرونٹس (تقرر، ترقی اور تبادلے) قواعد 1974 کے قاعدے اے-12 کے تحت سرکاری ملازمت میں بھرتی کے وقت سرکاری ملازم کی جانب سے ایک بار درج کی گئی تاریخِ پیدائش حتمی ہوگی اور اس میں کوئی تبدیلی جائز نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں 5 ججوں کی تعیناتی چیف جسٹس کی حمایت کے باوجود کثرت رائے سے مسترد

فیصلے میں کہا گیا کہ اس قاعدے کی خصوصیات پر کوئی بےاعتمادی یا تحفظات نہیں ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی اس قاعدے نے مجاز اتھارٹی کو ایسے معاملات کی انکوائری کرنے سے منع یا روک نہیں دیا جن میں سرکاری ملازم کی جانب سے سروس بک میں کچھ تحریف کی گئی ہو یا اس نے سروس ریکارڈ میں غلط تاریخ درج کردی ہو۔

سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ ایسی صورت میں مناسب تسلی اور انکوائری کے بعد تصحیح کی جا سکتی ہے، ہر کیس کا فیصلہ اس کے اپنے حقائق اور حالات کے مطابق کرنا ہوگا۔

موجودہ کیس میں اصل تاریخ پیدائش کی توثیق کی گئی اور شک و شبہ سے بالاتر اور تسلی کے بعد ثابت ہوئی۔

فیصلے میں بتایا گیا کہ درخواست گزار کے دعوے کی سچائی کی تصدیق کے لیے ٹربیونل نے اس پرائمری اسکول سے رجسٹر بھی طلب کیا جس میں درخواست گزار کو داخل کیا گیا تھا لیکن ان کے نام اور تاریخ پیدائش پر مشتمل صفحہ پھٹا ہوا پایا گیا اور ایسی حالت میں کوئی دوسرا صفحہ نہیں ملا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں