کورم پورا نہ ہونے کے باعث قومی اسمبلی کا اجلاس پھر ملتوی، اراکین کی وزرا پر تنقید

13 اکتوبر 2022
ایوان کی کارروائی آگے بڑھانے کے لیے 86 اراکین کی موجودگی ضروری ہوتی ہے— فائل فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر
ایوان کی کارروائی آگے بڑھانے کے لیے 86 اراکین کی موجودگی ضروری ہوتی ہے— فائل فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر

حکومت کے 100 سے زائد کابینہ اراکین اور پارلیمانی سیکریٹریز کے باوجود گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس کے لیے کورم پورا نہ ہونے کے باعث سیلاب کے سبب ملک کو درپیش صورتحال ایک بار پھر زیر بحث نہ آسکی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کُل 342 ارکان پر مشتمل اسمبلی میں ایوان کی کارروائی آگے بڑھانے کے لیے 86 اراکین کی موجودگی ضروری ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی میں کورم پورا نہ ہونے کے سبب صدر کے خلاف مذمتی قرارداد پیش نہ ہوسکی

کورم کی کمی کی نشاندہی اپوزیشن گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے غوث بخش مہر نے اس وقت کی جب بدین سے پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی غلام علی تالپور نے وزرا کی عدم موجودگی میں تقریر سے انکار کر دیا جس پر ڈپٹی اسپیکر زاہد اکرم درانی نے ایوان کی کارروائی آج صبح تک ملتوی کر دی۔

وزرا بھی اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی ہدایات کو نظر انداز کرتے نظر آئے جو انہوں نے پیر کو اس وقت جاری کی تھیں جب ایوان کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا تھا اور ارکان اسمبلی نے وزرا کی عدم موجودگی میں بحث میں حصہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔

اجلاس کو مؤخر کرتے ہوئے اسپیکر نے کابینہ کے سینیئر ارکان سے کہا تھا کہ وہ وزیر اعظم شہباز شریف کے سامنے ایوان میں غیر حاضری کا معاملہ اٹھائیں اور وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی کو گزشتہ روز ہونے والی کارروائی کے دوران وزرا کی ایوان میں موجودگی یقینی بنانے کی ہدایت کی تھی۔

پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنما اور وزیر برائے آبی وسائل خورشید شاہ نے بھی پیر کے روز اپنے کابینہ کے ساتھیوں کے غیر سنجیدہ رویے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر پوری دنیا اور اقوام متحدہ پریشان ہیں لیکن وہ اس کو کوئی اہمیت نہیں دیتے، پہلے ہی یہ مسئلہ وزیر اعظم کے سامنے اٹھا چکے ہیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

مزید پڑھیں: کورم پورا نہ ہونے کے باعث قومی اسمبلی کے اجلاس 24 مرتبہ ملتوی ہوئے، پلڈاٹ

نمازِ مغرب کے 20 منٹ کے وقفے کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے غلام علی تالپور کو بولنے کا موقع دیا تو انہوں نے ایوان میں خالی ہال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اس ایوان کی تصویر اقوام متحدہ کو بھیجیں‘۔

اسپیکر کی جانب سے اس مہلت کا اعلان اسی لیے کیا گیا تھا تاکہ حکومت ایوان میں اہم مسائل پر بحث کے لیے اپنے وزرا کی موجودگی کو یقینی بنا سکے۔

گزشتہ روز پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی نے نشاندہی کی کہ اسپیکر کی ہدایت کا یہ اثرہے کہ 2 وزرا جو نماز کے وقفے سے قبل ایوان میں موجود تھے وہ بھی ارکان اسمبلی کی ایوان میں واپسی تک یہاں سے چلے گئے۔

بعد ازاں انہوں نے اپنی تقریر مکمل کرنے سے انکار کردیا جس کا آغاز انہوں نے سیلاب کی صورت حال کے حوالے سے ناقص اقدامات پر قومی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ حکام پر تنقید کے ساتھ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی میں وزرا کی عدم موجودگی پر اراکین کی شدید تنقید

پیپلزپارٹی کے ایک اور رکن قومی اسمبلی منور علی تالپور نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے وزرا بھی ارکان اسمبلی کی شکایات سننے کے لیے ایوان میں موجود نہیں ہیں۔

وقفہ سوالات کے دوران بھی زیادہ تر وزرا ایوان میں موجود نہیں تھے اور زیادہ تر جوابات متعلقہ پارلیمانی سیکریٹریز نے دیے۔

وفاقی کابینہ 75 اراکین پر مشتمل ہے جس میں 35 وزرا اور وزیراعظم کے 29 معاونین خصوصی شامل ہیں، اس کے علاوہ وزیر اعظم نے 36 پارلیمانی سیکریٹریز کا تقرر کیا ہے جن کی ذمہ داری صرف وقفہ سوالات کے دوران وزرا اور ان کے نائبین کی غیر موجودگی میں ارکان اسمبلی کے سوالات کا جواب دینا ہے جنہیں وزیر مملکت کہا جاتا ہے۔

قبل ازیں ایوان میں اس وقت ایک دلچسپ صورتحال دیکھنے میں آئی جب خورشید شاہ نے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ (ایف پی اے) کی وجہ سے بجلی کے مہنگے بلوں کے معاملے پر احتجاج کرنے والے اراکین اسمبلی کے ساتھ مل گئے۔

مزید پڑھیں: کورم پورا نہ ہونے پر سینیٹ اجلاس ملتوی، سیلاب اور معاشی صورتحال پر بحث نہ ہوسکی

وزیر توانائی خرم دستگیر خان اس معاملے پر توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دے رہے تھے، اس موقع پر خورشید شاہ نے ایوان کو بتایا کہ انہیں ان کی رہائش گاہ پر بل موصول ہوا ہے جس میں 33 ہزار روپے بل اور 2 لاکھ 74 ہزار فیول ایڈجسمنٹ چارجز لگائے گئے ہیں اور وہ اس حساب کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔

وزیر توانائی نے جواب دیا کہ خورشید شاہ اپنا بل انہیں فراہم کریں گے تو حکومت اس مسئلے کو حل کرے گی، اس پر اسپیکر نے کہا کہ یہ مسئلہ پاکستان کے تمام لوگوں کو درپیش ہے۔

وزیر توانائی نے اعتراف کیا کہ لوگوں کو اگست میں موصول ہونے والے مہنگے بلوں کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا، تاہم انہوں نے وعدہ کیا کہ حکومت جلد ہی عوام کو ریلیف فراہم کرے گی۔

انہوں نے بتایا کہ بجلی کے صارفین کو گزشتہ 2 ماہ کے دوران فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 65 ارب روپے کا ریلیف پہلے ہی فراہم کیا جا چکا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں