پنجاب کے محکمے لاوارث لاشوں کی شناخت کیلئے فی کس 200 روپے دینے سے گریزاں

اپ ڈیٹ 17 اکتوبر 2022
پنجاب کے  تین ریاستی ادارے لاوارث لاشوں کی شناخت کے لیے فی کس '200 روپے' کی معمولی رقم ادا کرنے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں — فائل فوٹو: پنجاب حکومت ویب سائٹ
پنجاب کے تین ریاستی ادارے لاوارث لاشوں کی شناخت کے لیے فی کس '200 روپے' کی معمولی رقم ادا کرنے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں — فائل فوٹو: پنجاب حکومت ویب سائٹ

ایک طرف پنجاب حکومت بیوروکریٹس کے لیے لگژری گاڑیوں کی خریداری پر لاکھوں روپے خرچ کر رہی ہے لیکن وہیں تین ریاستی ادارے لاوارث لاشوں کی شناخت کے لیے فی کس '200 روپے' کی معمولی رقم ادا کرنے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں تاکہ ان لاشوں کی شناخت کر کے اہل خانہ کو ان کی تدفین اور آخری رسومات ادا کرنے میں مدد کی جاسکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) اور پنجاب کے محکمہ داخلہ اور صحت 'نامعلوم/ناقابل شناخت لاشوں اور مریضوں کی شناخت' کے عنوان کے تحت لاگت اور اخراجات برداشت کرنے کے لیے فنڈز مختص کرنے کا بوجھ ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: ملتان کے نشتر ہسپتال میں لاشوں کی بے حرمتی، تحقیقات کیلئے ٹیم تشکیل

چند روز قبل ملتان کی نشتر میڈیکل یونیورسٹی کی چھت سے نامعلوم افراد کی لاشیں ملی تھیں۔

لاہور ہائی کورٹ نے دو سال قبل تینوں اداروں کو پنجاب کے 26 سرکاری ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتالوں، 115 تحصیل ہیڈکوارٹرز اور 44 ٹیچنگ ہسپتالوں میں نامعلوم لاشوں/نامعلوم/نامعلوم مریضوں/منشیات کے عادی افراد کے بائیومیٹرک فنگر پرنٹس کے لیے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کرنے کی ہدایت کی تھی۔

اس انتہائی اہم اسکیم کے تحت پنجاب کے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں رپورٹنگ کرنے والے ہر ایک لاوارث/نامعلوم لاش یا مریض کی ’بائیومیٹرک تصدیق‘ کے لیے صرف 200 روپے کی ادائیگی کی ضرورت تھی۔

بدقسمتی سے اسکیم پچھلے دو سالوں سے زیر التوا ہے کیونکہ کوئی بھی اس پر لاہور ہائی کورٹ کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے عمل کرنے کو تیار نہیں ہے۔

دوسری جانب کابینہ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و ترقی نے 10 ستمبر کو وزیر اعلیٰ کی منظوری کے بعد پیش کی گئی سمری کی منظوری دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پنجاب حکومت وزیر اعلیٰ ہاؤس اور کابینہ کے ارکان کے لیے 30 کروڑ روپے کی لاگت سے 40 نئی گاڑیاں خریدے گی۔

یہ بھی پڑھیں: نشتر ہسپتال کی چھت پر مسخ شدہ لاشوں کا معاملہ، طبی اخلاقیات، ایس او پیز کی خلاف ورزی

اس پیشرفت سے آگاہ ایک اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ اکیلے میو ہسپتال لاہور کو ہر ماہ تقریباً 40 سے 50 لاوارث لاشیں موصول ہو رہی ہیں جبکہ شعبہ حادثات اور ایمرجنسی میں نامعلوم مریضوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح جناح ہسپتال لاہور، لاہور جنرل ہسپتال اور ان ہاؤسنگ مردہ خانوں سے بھی روزانہ ’لاوارث لاشیں‘ اور نامعلوم مریض مل رہے ہیں۔

دہائیوں پرانے نظام میں انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں پر کسی کا دھیان نہیں گیا کیونکہ نامعلوم لاشوں کو یا تو مقامی قبرستانوں میں دفن کیا جاتا تھا یا تجربات کے لیے طبی اداروں کو فروخت کیا جاتا تھا۔

عہدیدار کے مطابق اس کے لیے مقامی پولیس شناخت کے عمل کے بغیر 'نامعلوم لاشوں' کا نام دی جانے والی لاشوں کا 'تصرف' کرنے کے لیے مختصر قانونی کارروائیاں انجام دیتی ہے۔

اہلکار نے بتایا کہ میو ہسپتال کے ڈاکٹر سلمان کاظمی نے 2020 میں لاہور ہائی کورٹ کا رخ کیا تھا اور ایک سینئر وکیل اظہر صدیق کے ذریعے درخواست دائر کی تھی جس میں پنجاب حکومت کو ہر لاوارث لاش اور نامعلوم مریض کی بائیومیٹرک تصدیق کو لازمی قرار دینے کی ہدایت کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: لاہور: مکان سے ماں بیٹی کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کا معمہ حل

بعد ازاں ہائی کورٹ نے ریاستی اداروں بشمول نادرا اور پنجاب کے محکمہ داخلہ اور صحت کو اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایم او یو پر دستخط کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔

اس کے بعد سے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز نے کئی سرکاری اجلاس کیے لیکن لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات پر کوئی تعمیل یقینی نہیں بنائی گئی، کیونکہ معاملہ ان سرکاری محکموں کے درمیان 'صرف' سرکاری خط و کتابت تک محدود تھا۔

اس سال 18 جولائی کو سیکریٹری صحت پنجاب کی جانب سے نادرا کے آپریشن رجسٹریشن ونگ کے ڈائریکٹر قاسم رضوی کو لکھے گئے آخری خط کے ذریعے سابق وزیر نے بتایا کہ لاوارث لاشوں کی بائیومیٹرک شناخت کے لیے پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں انسانی اور دیگر وسائل دستیاب ہیں۔

اس کے جواب میں نادرا اسلام آباد نے 10 اگست کو محکمہ صحت کو بتایا تھا کہ ادارہ بائیومیٹرک تصدیق سروس کے لیے فی کیس 200 روپے وصول کرے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں