الیکشن کمیشن کے خلاف احتجاج پر تقریباً 2 ہزار افراد کےخلاف مقدمات درج

اپ ڈیٹ 23 اکتوبر 2022
ایک ہزار 900 سے زائد مشتبہ افراد کے خلاف کم از کم 7 مقدمات درج کیے گئے ہیں—تصویر: رائٹرز
ایک ہزار 900 سے زائد مشتبہ افراد کے خلاف کم از کم 7 مقدمات درج کیے گئے ہیں—تصویر: رائٹرز

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے فیصلے کے خلاف احتجاج کے سلسلے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنماؤں سمیت ایک ہزار 900 سے زائد مشتبہ افراد کے خلاف کم از کم 7 مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں دہشت گردی کا مقدمہ بھی شامل ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پارٹی قیادت کے خلاف سیکریٹریٹ، انڈسٹریل ایریا، شہزاد ٹاؤن، سہالہ، سنگجانی، کھنہ اور بہارہ کہو تھانوں میں درج مقدمات میں ان پر سڑکیں بلاک کرنے، پولیس اہلکاروں پر حملے اور سرکاری و نجی املاک کو تباہ کرنے کا الزام ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما محسن نواز رانجھا کی شکایت پر سابق وزیر اعظم عمران خان اور پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں پر سیکریٹریٹ پولیس نے تعزیرات پاکستان (پی پی سی) کی دفعہ 109، 148، 149، 324 اور 427 کے تحت فرد جرم عائد کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نااہلی پر احتجاج، عمران خان، اسد عمر سمیت 100 پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان پر حملہ پی ٹی آئی رہنماؤں کے کہنے پر کیا گیا، حملے میں ان کی گاڑی کو بھی نقصان پہنچا۔

اسی طرح سنگجانی پولیس نے عمران خان، اسد عمر، علی نواز اعوان اور دیگر کے کہنے پر سری نگر ہائی وے کو بلاک کرنے اور پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے پر پی پی سی کی دیگر دفعات کے ساتھ ساتھ اے ٹی اے 7 کے تحت 6 افراد سمیت 100 افراد کو نامزد کیا ہے۔

دریں اثنا شہزاد ٹاؤن تھانے میں درج مقدمے میں 150 دیگر افراد کے ساتھ 6 افراد کو نامزد کیا گیا تھا جنہوں نے تارامڑی چوک کو بلاک کرنے، لاٹھیوں اور لوہے کی سلاخوں سے مسلح ہو کر ٹائروں کو آگ لگا دی۔

سہالہ تھانے کے مقدمے میں جی ٹی روڈ کو بلاک کرنے پر 100 افراد کے ساتھ 11 افراد کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ کھنہ پولیس نے اپنی ایف آئی آر میں 250 دیگر کارکنوں کے ساتھ اقبال ٹاؤن میں مسلح اجتماع کے لیے 15 افراد کو نامزد کیا ہے، جہاں انہوں نے اسلام آباد ایکسپریس وے کو بلاک کیا اور وہاں پولیس پارٹی پر حملہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کارکنان کا ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج

بہارہ کہو پولیس اسٹیشن کے مقدمے میں 29 افراد کے ساتھ 235 دیگر افراد کو مسلح ہجوم کے ساتھ اتھل چوک بلاک کرنے اور پولیس اہلکاروں کو دھمکیاں دینے کے الزام میں نامزد کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ سیکریٹریٹ تھانے میں خیبر پختونخوا سے پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی صالح محمد خان سواتی اور ان کے دو ذاتی محافظوں کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج ہونے کے بعد اسلام آباد پولیس نے بعد ازاں ایم این اے کی پولیس پینا فلیکس کے سامنے کھڑے ہونے کی تصویر شیئر کی جس پر ان کے گلے میں ایک شناختی بورڈ لٹکا ہوا تھا جس پر ان کے خلاف مقدمے کی تفصیلات درج تھیں۔

سینئر افسران نے ڈان کو بتایا کہ یہ تصویر سب سے پہلے سینئر پولیس افسران کے ایک گروپ میں شیئر کی گئی تھی جہاں سے یہ پھیل گئی۔

ذرائع نے وضاحت کی عام طور پر عادی مجرم ہوتے ہیں اور وہ لوگ جو ڈکیتی اور دہشت گردی جیسے گھناؤنے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں اور پولیس کرمنل ریکارڈ آفس (سی آر او) پروفائلنگ کے عمل کے ایک حصے کے طور پر تصویر کھینچتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: توشہ خانہ ریفرنس: الیکشن کمیشن نے عمران خان کو نااہل قرار دے دیا

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ کئی سینئر افسران نے اس تصویر کو عوام کے لیے جاری کیے جانے پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔

بعد ازاں رکن قومی اسمبلی اور ان کے دو محافظوں کو عدالت میں پیش کیا گیا جہاں سے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔

دوسری جانب کیپٹل پولیس نے سابق مشیر احتساب شہزاد اکبر، ایف آئی اے کے اہلکاروں اور ماڈل صوفیہ مرزا کے خلاف بھی سازش، جعلسازی اور عوامی عہدے کے غلط استعمال کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔

یہ مقدمہ محترمہ مرزا کے سابق شوہر عمر فاروق ظہور کی جانب سے درج کرائی گئی شکایت کے جواب میں سیکریٹریٹ پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں