کوالیفائنگ راؤنڈ میں آئرلینڈ نے گروپ میں ٹاپ کیا اور ویسٹ انڈیز کی چھٹی ہوئی تو انگلینڈ اور آسٹریلیا کی ٹیموں نے یقیناً سُکھ کا سانس لیا ہوگا کیونکہ ویسٹ انڈیز ٹیم کی فارم چاہے جتنی بھی خراب ہو، مگر وہ کسی بھی ٹیم کو مشکل میں ڈالنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔

لیکن بھلا یہ کسے معلوم تھا کہ انگلینڈ، جسے ہر تجزیہ کار سیمی فائنل میں دیکھ رہا تھا، اسے آئرلینڈ کے ہاتھوں شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا۔

لیکن کہیں نہ کہیں انگلینڈ کی ٹیم منیجمنٹ کے ذہنوں میں یہ بات ضرور ہوگی کہ ورلڈ کپ مقابلوں میں انگلینڈ کا یورپی ٹیموں کے خلاف ریکارڈ کافی خراب ہے۔ آئرلینڈ کی ٹیم اس سے پہلے 2011ء میں منعقد ہونے والے ون ڈے ورلڈ کپ میں کیون او برائن کی شاندار اور لاجواب اننگ کی بدولت انگلینڈ کو شکست دے چکی تھی۔

پھر 2009ء میں کھیلے جانے والے ٹی20 ورلڈکپ میں نیدرلینڈ نے ایک بڑے ہدف کے باوجود انگلینڈ کی عمدہ ٹیم کو پچھاڑ دیا تھا۔ یہ وہی میچ تھا جب آخری اوور میں اسٹورٹ براڈ اچھی باؤلنگ کرنے کے باوجود نیدرلینڈ کے بیٹسمین کو رن آؤٹ کرنے میں ناکام رہے تھے۔

نیدرلینڈ کے خلاف 2014ء میں تو انگلینڈ کے لیے ہدف بھی صرف 134 رنز کا تھا لیکن مدثر بخاری اور باقی باؤلرز کی بہترین باؤلنگ نے انگلش ٹیم کو صرف 88 پر ڈھیر کردیا تھا اور اب 2022ء میں ایک بار پھر انگلینڈ کو آئرلینڈ کے ہاتھوں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔

میچ سے پہلے بارش ہوچکی تھی اور درمیان میں بھی بارش کی توقع تھی۔ میلبورن میں اس میچ سے قبل کھیلے گئے 6 ٹی20 مقابلوں میں ہدف کا تعاقب کرنے والی ٹیموں کو کامیابی ملی ہے، لہٰذا دونوں ٹیموں کی یہی خواہش تھی کہ ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا جائے۔ ساتھ ہی بارش کے بعد استعمال ہونے والا ڈک ورتھ لوئس سسٹم بھی بعد میں کھیلنے والی ٹیموں کے لیے مفید رہا ہے۔

آئرش ٹیم نے پال اسٹرلنگ جیسے تجربہ کار اور ان فارم بیٹسمین کو تو جلدی کھو دیا لیکن کپتان اینڈی بلبرین اور وکٹ کیپر لورکان ٹکر نے انگلش فاسٹ باؤلرز کا خوب جم کر مقابلہ کیا۔ اس پوری اننگ میں انگلینڈ کی جانب سے ایک فیصلے نے بہت حیران کیا اور وہ یہ کہ انگلینڈ کے کپتان جوز بٹلر نے پوری اننگ میں معین علی کو استعمال نہیں کیا۔

کرکٹ میں ’میچ اپس‘ ایک اچھی چیز ہے لیکن کیا واقعی یہ اتنی اچھی ہے کہ ایک ایسی وکٹ پر جہاں 2 اسپنرز نے 7 اوورز میں صرف 41 رنز دیتے ہوئے 3 وکٹیں حاصل کی ہوں، وہاں معین علی سے باؤلنگ ہی نہیں کروائی گئی؟

چلیں سب سے پہلے تو دیکھ لیں کہ ’میچ اپس‘ ہوتے کیا ہیں۔ دائیں ہاتھ کے بیٹسمین اکثر لیگ اسپنرز اور لیفٹ آرم اسپنرز کے خلاف مشکلات کا شکار رہتے ہیں جبکہ آف اسپنر کو نسبتاً آسانی سے کھیل لیتے ہیں۔ بات ہو بائیں ہاتھ کے بیٹسمین کی تو کہانی الٹ ہوجاتی ہے۔ اس کو آسان انداز میں اس طرح سمجھ لیجیے کہ گیند اگر بیٹسمین سے دُور جا رہی ہو تو بیٹسمین کے لیے کھیلنا مشکل ہوجاتا ہے۔

اگر ہم کچھ عرصے پہلے کی بات کریں تو یہ معاملہ واقعی اہمیت کا حامل تھا اور بیٹسمین ان مشکلات کا ہمیشہ سے شکار رہے ہیں مگر جب سے ٹی20 اور لیگ کرکٹ نے زور پکڑا ہے تب سے ٹیموں نے اس معاملے پر بہت کام اور پلاننگ کی ہیں۔

دائیں ہاتھ کے بیٹسمین کے سامنے آف اسپنر کو کم باؤلنگ دی جاتی ہے اور بائیں ہاتھ کے بیٹسمین کے سامنے لیفٹ آرم اسپنر اور لیگ اسپنرز (اگر لیگ اسپنر کے پاس اچھی گوگلی نہ ہو) کو باؤلنگ پر لانے سے گریز کیا جاتا ہے۔ تمام ہی ٹیمیں اس کا خیال رکھتی ہیں لیکن انگلینڈ کی ٹیم تو اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی محتاط ہوگئی ہے۔ مخالف ٹیم میں اگر بائیں ہاتھ کا بیٹسمین نہ ہو تو معین علی کو اکثر باؤلنگ پر لایا ہی نہیں جاتا۔

انگلینڈ کے خلاف جہاں آئرلینڈ کے بیٹسمینوں نے پاور پلے کا اچھا استعمال کیا وہیں آئرش باؤلرز بھی پیچھے نہ رہے۔ ایک ایسا ہدف جس کے بارے میں خیال تھا کہ انگلینڈ کے لیے نیٹ رن میں بہتری کا باعث بن سکتا ہے، پاور پلے کے اختتام تک وہاں تک پہنچنا بھی مشکل دکھائی دینے لگا۔

پاور پلے میں 3 وکٹیں گرنے کے بعد ڈیوڈ ملان اور ہنری بروک کے لیے بھی مومینٹم حاصل کرنا مشکل بن رہا تھا۔ ان دونوں کے آؤٹ ہونے کے بعد معین علی نے کوشش تو بھرپور کی لیکن شاید صرف ایک ہٹ سے پیچھے رہ گئے۔ لیگ اسپنر گیرتھ ڈیلینی کے جس اوور میں بارش شروع ہوئی ہے، اس میں معین علی 3 گیندوں پر 12 رنز بنا چکے تھے اور اگر یہ اوور مکمل ہوجاتا تو زیادہ امکان یہی تھا کہ معین علی انگلینڈ کا اسکور ڈک ورتھ لوئس سسٹم کے مطلوبہ اسکور سے اوپر لے جاتے، مگر بارش کچھ یوں برسی کہ نہ صرف یہ میچ ختم ہوا بلکہ اگلا میچ بھی منسوخ کرنا پڑا۔

انگلینڈ کی اس شکست اور نیوزی لینڈ، افغانستان کا میچ منسوخ ہونے کے بعد گروپ 1 میں پوائنٹس ٹیبل نے کافی دلچسپ شکل اختیار کرلی ہے۔ اس گروپ میں تمام ٹیمیں 2 میچ کھیل چکی ہیں اور سبھی ٹیمیں ابھی سیمی فائنل کی دوڑ میں شامل ہیں۔

اب جمعے کو انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان ہونے والا اہم مقابلہ مزید اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ اس میچ میں جس ٹیم کو بھی شکست ہوئی، اس کے لیے آگے جانے کے راستے انتہائی مشکل اور کٹھن ہوجائیں گے۔ خاص طور پر اگر انگلینڈ کی ٹیم یہ میچ ہارتی ہے تو اس کی مشکلات میں کافی زیادہ اضافہ ہوجائے گا۔

آسٹریلیا کے خلاف اس میچ کے بعد انگلینڈ کو سری لنکا اور نیوزی لینڈ کے خلاف مزید 2 اہم میچ کھیلنے ہیں اور ابھی تک انگلینڈ کو حاصل ہونے والی واحد فتح کی وجہ سے اس کا رن ریٹ (0.239) ہے، جو آگے جاکر مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔

بدقسمتی سے اس میگا ایونٹ میں بھی بارش کا کردار انتہائی اہم بنتا جارہا ہے۔ اب تک اس ٹورنامنٹ میں 3 اہم میچ بارش کی وجہ سے متاثر ہوچکے ہیں اور خدشہ ہے کہ آگے بھی کچھ مزید میچ متاثر ہوں گے، لہٰذا ٹیموں کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ یہ دیکھنا بھی اہم ہوگا کہ بارش کس کے لیے نعمت اور کس کے لیے زحمت بن کر برسے گی۔

اس لیے اب تمام ہی ٹیموں کو بارش کے امکان کو ذہن میں رکھ کر کھیلنا ہوگا۔ یعنی اب ٹیموں کے لیے صرف جیت کی اہمیت نہیں ہے، بلکہ رن ریٹ کی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے کیونکہ اگر اسی طرح بارش کے سبب میچ منسوخ ہوتے رہے تو گروپ میچوں کے اختتام تک متعدد ٹیمیں برابر پوائنٹس کے ساتھ ٹیبل پر موجود ہوسکتی ہیں اور سیمی فائنل میں وہی ٹیمیں کوالیفائی کرسکیں گی، جن کے رن ریٹ اچھے ہوں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں