وزیراعظم شہاز شریف نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال سے درخواست کی ہے کہ وہ عمران خان کے الزامات کی تحقیقات کے لیے فل کورٹ کمیشن تشکیل دیں۔

لاہور میں پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ وہ جلد فل کورٹ کمیشن کی تشکیل کے لیے چیف جسٹس کو خط لکھیں گے۔

شہباز شریف نے کہا ان کے علم میں آیا ہے کہ صحافی ارشد شریف کی والدہ نے اپنے بیٹے کی قتل کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، ’تو میری گزارش ہے کہ یہی فل کورٹ کمیشن ارشد شریف کے قتل کی بھی تحقیقات کرے‘۔

انہوں نے کہا ہےکہ کل اور پرسوں بدترین قسم کی الزام تراشی کی گئی ہے، ایک مرتبہ پھر جھوٹ اور گھٹیا پن کا مظاہرہ کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کہا گیا کہ اس واقعے کے پیچھے ایک سازش ہوئی ہے جو وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور ایک ادارے کے ایک اہم افسر تینوں نے مل کر کی ہے، یہ افسوس ناک بات ہے، یہ گھڑی ایسی ہے کہ سخت الفاظ سے پرہیز کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: اعلیٰ افسر کے خلاف عمران خان کے الزامات بے بنیاد اور ناقابل قبول ہیں، آئی ایس پی آر

ان کا کہنا تھا کہ قوم کو مسلسل آپ اپنے جھوٹ، بدنیتی اور گھٹیا پن سے قوم کو بری طرح تباہی کے کنارے لے جانے کی بہت ہی افسوس ناک حرکتیں کر رہے ہوں تو میرا بھی فرض ہے کہ وہ پاکستان کو بچانے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ الحمد اللہ چار سال کا جمود ٹوٹا اور پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے حوالے سے پیش رفت شروع ہو گئی ہے، یہ باتیں پھر کسی اور موقع پر کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ عمران نیازی اور باقی زخمیوں کو صحت اور تندرستی دے لیکن مسلسل جو جھوٹ بولا جارہا ہے، قوم کے ساتھ فراڈ کیا جارہا ہے، اپنی بدترین اور گھناؤنی سازشوں کی، اداروں کے خلاف بھی کی۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے عمران خان کے متعدد ویڈیو کلپ دکھاتے ہوئے کہا کہ جنرل قمر جاوید باوجوہ کے بارے میں عمران خان کیا کہتے تھے؟ آپ سن لیں، اس کے بعد انہوں نے کہا کہ آپ نے دیکھ لیا کہ تضاد بھری ایک داستان ہے، مجھے ایک لمحہ بھی ضائع کرنے کی ضرورت نہیں کہ یہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے زندگی دی، دن رات جھوٹ بولنے والا شخص آج وہ افواج پاکستان پر اس طرح حملہ آور ہے کہ جس طرح خدانخواستہ دشمن حملہ کر دے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف یہ (عمران خان) کہتا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ میرے ساتھ کھڑے ہیں، جنرل باجوہ افواج پاکستان کے سپہ سالار ہیں، اس ادارے کے خلاف جو گندی، فاش گالیاں جو سوشل میڈیا پر چل رہی ہیں، دشمن ملک بھارت کو اور کیا چاہیے، وہ تو آج وہاں پر خوشیاں منا رہے ہیں، بھارت کے ٹی وی چینلز پر کس طرح مسکراہٹیں ان کے چہروں پر ہیں کہ کس طرح عمران خان اپنی آئی ایس آئی اور فوجی ادارے کے خلاف اٹھ کھڑا ہے اور وہ سنگین الزامات لگا رہا ہے کہ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: عمران خان جہاں سے مرضی تحقیقات کروائیں لیکن اس میں پیش اور الزامات کے ثبوت دیں، مریم اورنگزیب

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ یہ شخص سر سے لے کر پاؤں تک جھوٹ کا مجسمہ ہے اور بدقسمتی سے پوری کوشش کر رہا ہے کہ قوم کو پٹری سے ہٹائے، یہ 22 کروڑ کا ملک ہے، اللہ تعالیٰ اس ملک کی حفاظت کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ 10 ارب روپے کا پانامہ کا الزام جو مجھ پر لگایا گیا تھا، پانچ سال سے وہ کیس عدالت میں چل رہا ہے، ان کے وکیل پیش نہیں ہوتے اور ہر پیشی پر کوئی بہانہ جبکہ یہ حکومت میں تھے۔

انہوں نے کہا کہ طیبہ گل کو وزیر اعظم ہاؤس میں حبس بے جا میں رکھا، ان کو بلیک میل کیا اور ان کے ذریعے جاوید اقبال کو بلیک میل کیا تاکہ ہمارے خلاف اور ان کے خلاف جو کیسز تھے وہ بند ہو جائیں۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ماڈل ٹاؤن کیس میں عدالت نے مجھے اور ساتھیوں کو کلین چٹ دی، اور لاہور ہائی کورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران نیازی نے ملتان میٹرو میں 17 ملین ڈالر کا الزام لگایا تھا، اس کا آج تک کیا بنا، چین کو ناراض اور بدنام کیا، وہ کیس کہاں گیا؟

'خارجہ تعلقات کے حوالے سے بتاؤں تو آپ کے سر چھت سے لگیں گے'

انہوں نے کہا کہ عمران نیازی قوم اور اداروں کو برباد اور تباہ کرنا چاہتا ہے، ملکی معیشت کو تباہ کردیا، خارجہ تعلقات تباہ کردیے۔

ان کا کہنا تھا کہ خارجہ تعلقات کے حوالے سے راز میرے سینے میں دفن ہیں، اگر میں آپ کو بتاؤں تو آپ کے سر چھت سے لگیں گے لیکن میں ایسی کوئی بات نہیں کروں گا۔

'مراسلہ بھیجا کہ لانگ مارچ میں خدانخواستہ دہشت گردی کو خطرہ ہے'

وزیراعظم شہباز شریف نے عمران خان کے الزام سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت آپ کی ہے، اسپیشل برانچ آپ کی ہے، آپ کے پاس دیگر ایجنسیز ہیں، آپ ان کے ساتھ تحقیقات کروائیں، وزیر اعلیٰ پنجاب سے پوچھیں کہ وفاقی حکومت کی جانب سے 28 اکتوبر کو وفاقی ایجنسی نے مراسلہ لکھ کر دیا جو ہم نے پنجاب حکومت کو بھجوایا کہ جو عمران خان کے لانگ مارچ ہو رہے ہیں وہاں پر خدانخواستہ دہشت گردی کا خطرہ ہے، اس کے لیے انتظام کیا جائے اور بہتر ہے کہ اس کو ختم کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹھیک ہوتے ہی دوبارہ سڑکوں پر نکلوں گا، عمران خان

ان کا کہنا تھا کہ حکومت پنجاب کی ذمہ داری تھی اگر یہ واقعہ ہوا ہے تو پنجاب حکومت سے پوچھے، ایف آئی آر کیوں نہیں کٹ رہی؟ پنجاب حکومت ان کی ہے، میری تو نہیں ہے، قوم کو بتائیں کہ اب تک فرانزک کیوں نہیں ہوا؟ وہ چار گولیاں ہیں، 16 یا 8 گولیاں ہیں، قوم کو بتائیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ میں مذہب کارڈ کے خلاف ہوں، سیاست، سیاست ہے، اور اللہ تعالیٰ کی کتاب اس کے احکامات اور نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ پر ہمارا ایمان ہے لیکن کسی نے احسن اقبال کے بارے میں پوچھا تھا جب وہ زخمی ہوئے تھے تو کسی نے نہیں پوچھا۔

'آپ قوم کے سامنے ثبوت لے آئیں، سازش ہوئی تو مجھے وزیراعظم رہنے کا حق نہیں'

ان کا کہنا تھا کہ زیر حراست ملزم کی ویڈیو سامنے آئی ہیں، پوری قوم کے سامنے ہیں، میں نے بھی دیکھی ہیں وہ خود اس جرم کو قبول کرتا ہے کہ میں نے یہ جرم کیا ہے، اس کے نتائج پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان نیازی آپ کے پاس ثبوت ہیں کہ ان تین لوگوں نے خدانخواستہ سازش کی ہے تو مجھے ایک لمحہ بھی وزیراعظم پاکستان رہنے کا کوئی حق نہیں ہے، آپ قوم کے سامنے ثبوت لے آئیں، ماضی کی طرح جھوٹ نہ بولیں۔

'عدالت عظمٰی الزام کے بعد خاموش بیٹھی تو ملک کے ساتھ ظلم ہوگا'

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ یہ (عمران خان) اپنی مرضی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کٹوانا چاہتے ہیں لیکن اگر انہوں نے ماضی کی طرح قوم کو ثبوت نہ دیا تو پھر اس بار میں سمجھتا ہوں کہ پورا پاکستان اس بات پر یکسو ہونا چاہیے، عدالت عظمٰی کا فرض بنتا ہے کہ اگر وہ اس الزام کے بعد خاموش بیٹھیں گی تو اس ملک کے ساتھ بڑا ظلم اور زیادتی ہوگی۔

'یہ سیدھے کیوں شوکت خانم پہنچ گئے، یہ سوالیہ نشان ہے'

ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر کٹتی ہے، باقاعدہ تحقیق ہوتی ہے اور وہ معاملہ چلتا ہے، باقاعدہ تحقیقاتی رپورٹ بنتی ہے، پھر عدالتوں میں پیش ہوتی ہے، میں کہنا چاہتا ہوں کہ ایف آئی آر کٹتی رہے گی اور تحقیقات ہوتی رہیں گی، میڈیکل لیگل سرٹیفیکٹ ضابطے اور قانون کے مطابق سرکاری ہسپتال دیتا ہے، یہ سیدھے کیوں شوکت خانم پہنچ گئے؟ یہ سوالیہ نشان ہے، اس کا قوم کو جواب دیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ جانور، نیوٹرل اور جو جو الفاظ کہے جارہے ہیں، میں کہتا ہوں کہ کوئی دشمن بھی اس طرح کی بات نہیں کرتا۔

یہ بھی پڑھیں: سی پیک کی بحالی کا عزم لیے وزیراعظم پہلے سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے

ان کا کہنا تھا کہ جنوبی اور شمالی وزیرستان میں ہزاروں جوانوں اور افسروں نے جام شہادت نوش کیا تاکہ پاکستان کو دہشت گردی سے بچایا جائے، کوئٹہ، کراچی، پشاور، لاہور اور آرمی پبلک اسکول میں ان کے بچے شہید ہوئے، دکانوں میں تاجر، گھروں میں مائیں، ہسپتالوں میں ڈاکٹر، اتنی قربانیاں دینے کے بعد عمران خان اس ادارے سپہ سالار اس کے بچوں اور افواج کے افسروں کے بارے میں جو باتیں کی گئی، کوئی تصور نہیں کرسکتا کہ آپ کوئی پاکستانی اس طرح کی بات کر سکتا تھا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ آج یہ قوم تاریخ کے اس موقع پر آ پہنچی ہے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا ہوگا، اس کے بغیر یہ ملک آگے نہیں چل سکے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں آج سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے ملتمس ہوں کہ فُل کورٹ کا کمیشن بنائیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال آپ سب سے بڑے قاضی ہیں، میں آپ سے ملتمس ہوں کہ اس ملک کے بہترین مفاد میں، عدل اور انصاف کے مفاد میں اور یہ فساد، فتنہ ختم کرنے کے لیے فل کورٹ پر مبنی کمیشن تشکیل دیں، میں خط کے ذریعے آپ کو درخواست کروں گا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اگر آج آپ نے میری درخواست کو منظور نہ فرمایا تو پھر آنے والے وقتوں میں ہمیشہ کے لیے یہ سوال اٹھتے رہیں گے، یہ فتنہ اور سازش تبھی دفن ہوگی کہ عدالت عظمٰی کے فل کورٹ کے کمیشن کے ذریعے حقائق سامنے آئیں گے، یہ پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے ۔

'فل کورٹ پر مبنی کمیشن کے فیصلے کو تسلیم کروں گا'

شہباز شریف نے مزید کہا کہ جب آپ مجھے کہیں گے میں پیش ہوتا رہوں گا، صوبوں سے آپ جس کو بلائیں گے وہ آئیں گے، وہ لاکھوں شہید جنہوں نے پاکستان کے لیے قربانیاں دی ہیں ان کی روحیں آپ سے مطالبہ کررہی ہیں کہ اتنا بڑا الزام ہے جس نے پاکستان کی جڑوں کو ہلا دیا ہے، اگر ہم اس الزام کی تہہ تک نہ پہنچے جو کہ صرف آپ کی ذات بطور چیف جسٹس اور آپ کا فل کورٹ ہے، اس پر مبنی کمیشن پر ہی پوری قوم کو اعتماد ہوگا، ابھی سے کہہ رہا ہوں کہ جو فیصلہ اس فل کورٹ پر مبنی کمیشن کا جو فیصلہ ہو گا میں اس کو من و عن اس کو تسلیم کروں گا۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کا 600 ارب روپے کے کسان پیکج کا اعلان

ان کا کہنا تھا کہ کوئی اور ادارہ، جے آئی ٹی، کوئی کمیٹی، کوئی کمیشن ان حالات میں قوم کو شافی اور کافی جواب نہیں دے سکتی۔

ارشد شریف قتل کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ میں نے اس حوالے سے خود کینیا کے صدر سے بات کی، وہاں پر ٹیم بھجوائی، سارے شواہد اکٹھے کیے، پھر میں نے ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن بنایا تھا، مجھے پتا چلا کہ ان کی والدہ نے اس کمیشن سے اتفاق نہیں کیا، میں چیف جسٹس آف پاکستان کو گزارش کروں گا کہ یہی فل کورٹ ارشد شریف کی بھی پوری تحقیق کرے اور بتائے کہ وہ کیا حقائق ہیں جس کی وجہ سے وہ دنیا سے چلے گئے، اور وہ کون سے کردار ہیں جنہوں نے اس سیاست کو ملوث کرنے کی کوشش کی۔

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس کو بھی اگر چیف جسٹس آف پاکستان شامل کرلیں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ جو اس ملک کے اندر جو دلوں میں بھڑاس ہے، اس کا بھی تسلی بخش جواب مل جائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس (عمران خان) شخص کو توفیق نہیں ہوئی کہ یہ سیلابوں میں جائے، ملک کے اندر انتشار اور خانہ جنگی کا جو ماحول یہ پیدا کر رہا ہے، ہم اس کے خلاف ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہوں گے، کوئی کسی غلط فہمی میں نہ رہے، یہ ڈرپوک شخص ہے، پاکستان کو بچانے کے لیے پورا رول ادا کریں گے۔

'آرمی چیف کا تقرر اپنے وقت پر ہو جائے گا'

آرمی چیف کے تقرر سے متعلق سوال پر شہباز شریف نے کہا کہ آرمی چیف کا تقرر اپنے وقت پر ہو جائے گا، آپ کو اس میں پریشان نہیں ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: چین کے ساتھ سرمایہ کاری، تجارتی تعلقات میں وسعت کے خواہاں ہیں، وزیراعظم

ان سے سوال پوچھا گیا کہ کل گورنر ہاؤس کے دروازے کو آگ لگا دی گئی، اور ریلی نکالی گئی اور ایک تصادم کی صورتحال پیدا ہوگئی، وفاق کب تک صبر کا مظاہرہ کرے گا؟ پنجاب حکومت کی طرف سے بھی کوئی کارروائی نہیں کی گی، اس پر ان کا کہنا تھا کہ یہ پنجاب حکومت کا فرض تھا، یہ وفاق کا دائرہ کار نہیں تھا اگر پنجاب حکومت نہیں سنبھال سکتی تھی تو وہ وفاق سے مدد طلب کرسکتی تھی، وہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور پوری سازش میں شریک ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز (4 نومبر) کو عمران خان نے چیف جسٹس کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ ’میں چیف جسٹس آپ سے مخاطب ہوں، جب تک قانون کی بالادستی نہیں ہوگی ملک ترقی نہیں کرسکتا، ملک کی بڑی پارٹی کے سربراہ کو انصاف نہیں مل رہا ہے‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ مشرقی پاکستان کے ساتھ ہم نے بڑا ظلم کیا وہ ہمیں چھوڑنا نہیں چاہتےتھے اور اب وہی کرنے جارہے ہیں، سب سے بڑی پارٹی کو دیوار کے ساتھ لگا رہے ہیں اور اس کے لیڈر کو قتل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں طے کرکے آیا اور جیسے ہی ٹھیک ہوں گا پھر سڑکوں پر نکلوں گا، پھر کال دوں گا، پھر اسلام آباد کی کال دوں گا‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’یہاں انصاف نہیں ہے، چیف جسٹس صاحب، میں گارنٹی کرتا ہوں جب تک یہ مستعفی نہیں ہوں گے تفتیش ہی نہیں ہوسکتی، تینوں ملوث ہیں، جن کے نیچے تفتیش ہونی ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں