معلومات تک رسائی: سب سے زیادہ درخواستیں وزارت دفاع، خزانہ کیلئے موصول ہوئیں، انفارمیشن کمیشن

اپ ڈیٹ 16 نومبر 2022
رائٹ ٹو انفارمیشن قوانین کے تحت کوئی بھی شہری کسی حکومتی ادارے سے معلومات لے سکتا ہے—فوٹو: شٹر اسٹاک
رائٹ ٹو انفارمیشن قوانین کے تحت کوئی بھی شہری کسی حکومتی ادارے سے معلومات لے سکتا ہے—فوٹو: شٹر اسٹاک

اپنے قیام کے 4 سال بعد پاکستان انفارمیشن کمیشن کو شہریوں کی جانب سے موصول ہونے والی کُل 2 ہزار 474 درخواستوں میں سے وزارت دفاع سے متعلق سب سے زیادہ درخواستیں موصول ہوئیں جب کہ اس کے بعد درخواستیں وزارت خزانہ کے حوالے سے دائر کی گئیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) سے متعلق برابر تعداد میں درخواستیں درج کی گئیں، کابینہ ڈویژن اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) چوتھے نمبر پر ہیں، وزارت قانون، سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ ان اداروں کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہیں جن کے خلاف سب سے زیادہ درخواستیں بھیجی گئیں۔

50 فیصد سے زیادہ درخواستوں پر پبلک سیکٹر کے اداروں سے معلومات حاصل نہیں کی جاسکیں یا تاحال ان درخواستوں پر عمل جاری ہے، اسی دوران پی آئی سی غیر فعال ہو گئی ہے جب کہ اس کے 4 میں سے 3 اراکین کی 4 سالہ مدت پوری ہوچکی ہے۔

کارکردگی رپورٹ کے مطابق 7 نومبر 2018 میں اپنے قیام کے بعد سے پاکستان انفارمیشن کمیشن معلومات تک رسائی کے حق ایکٹ 2017 کو نافذ کرنے کی اپنی قانونی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے جب کہ شہریوں کو وفاقی وزارتوں، کمیشن اور آئینی اداروں وغیرہ سے معلومات حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

گزشتہ 4 برسوں میں پاکستان انفارمیشن کمیشن کو موصول ہونے والی کُل 2 ہزار 474 اپیلوں میں سے 2 ہزار 153 درخواستیں ڈاک کے ذریعے اور 321 ای میل کے ذریعے انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم پر موصول ہوئیں، ان میں سے ایک ہزار 30 درخواستوں پر عمل مکمل کیا گیا، درخواست گزاروں کو فراہم کردہ معلومات اور کیس کلوزر سرٹیفکیٹ درخواست گزاروں اور جواب دہ اداروں کے ساتھ شیئر کیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، نادرا، نیب، وزارت اطلاعات، وزارت خارجہ، توانائی، داخلہ، انسانی حقوق، تعلیم، موسمیاتی تبدیلی، الیکشن کمیشن آف پاکستان، ہائر ایجوکیشن کمیشن، آئیسکو، فیڈرل پبلک سروس کمیشن، قومی اسمبلی سیکریٹریٹ، وزیر اعظم سیکریٹریٹ، سینیٹ سیکریٹریٹ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، ایس این جی پی ایل، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، او جی ڈی سی ایل ان اداروں میں شامل ہیں جنہوں نے معلومات فراہم کرنے سے انکار کیا۔

کمیشن کے رکن زاہد عبداللہ نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی سی 7 نومبر سے غیر فعال ہے، کیونکہ اس کے 4 میں سے 3 ارکان کی 4 سالہ مدت ختم ہو چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے وزارت اطلاعات نے نئے اراکین کی تقرری کا عمل شروع نہیں کیا۔

5 ستمبر کو چیف انفارمیشن کمشنر محمد اعظم نے نئے اراکین کی تقرری کے لیے وزارت کو خط لکھا لیکن ہمیں کوئی جواب نہیں دیا گیا، 14 نومبر کو انفارمیشن سیکریٹری کو یاد دہانی کے لیے بھی خط لکھا گیا جس کی کاپی متعلقہ وزیر کو بھی بھیجی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام کو معلومات تک رسائی کے آئینی حق سے محروم کیا جارہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں