ارشد شریف قتل کیس: ایف آئی اے نے ثبوت فراہم کرنے کیلئے تسنیم حیدر کو طلب کرلیا

اپ ڈیٹ 24 نومبر 2022
صحافی ارشد شریف کو ایک ماہ قبل کینیا میں قتل کیا گیا تھا — فائل فوٹو: ٹوئٹر
صحافی ارشد شریف کو ایک ماہ قبل کینیا میں قتل کیا گیا تھا — فائل فوٹو: ٹوئٹر

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے صحافی ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے اہم معلومات اور ثبوت کا دعویٰ کرنے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مبینہ رہنما تسنیم حیدر کو طلب کرلیا۔

ایف آئی اے کی دو رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فکیشن میں تسنیم حیدر کو صحافی ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے تفتیش میں شامل ہونے کے لیے طلب کیا ہے۔

ایف آئی اے کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے مبینہ رہنما کو 29 نومبر کو طلب کیا گیا ہے۔

نوٹی فکیشن میں لکھا گیا ہے کہ ’آپ (تسنیم حیدر) نے میڈیا پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ارشد شریف کے قتل سے متعلق آپ کے پاس اہم معلومات اور ثبوت ہیں، لہٰذا آپ کو 29 نومبر کو فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کی گزارش کی جاتی ہے۔‘

خیال رہے کہ21 نومبر کو تسنیم حیدر نے صحافی ارشد شریف کے قتل سے متعلق لندن میں پریس کانفرنس کی تھی جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ صحافی کے قتل سے متعلق ان کے پاس اہم معلومات اور ثبوت موجود ہیں۔

سوشل میڈیا پر گردش گرتی تسنیم حیدر کی پریس کانفرنس کے ویڈیو کلپس کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے متعدد رہنماؤں کی جانب سے شیئر کیا گیا تھا۔

پریس کانفرنس میں تسنیم حیدر نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ لندن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ترجمان ہیں، انہوں نے الزام عائد کیا کہ (ن) لیگ کے قائد نواز شریف سینئر صحافی ارشد شریف کے قتل اور سابق وزیراعظم عمران خان پر قاتلانہ حملے کی سازش کا حصہ تھے۔

بعدازاں، وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے وضاحت کی کہ تسنیم حیدر نامی شخص پاکستان مسلم لیگ (ن) لندن کا ترجمان نہیں ہے اور اس کی جانب سے لگائے جانے والے سنگین الزامات کو مسترد کر دیا۔

الزامات پر ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا تھا کہ تسنیم حیدر نامی شخص پاکستان مسلم لیگ (ن) لندن کا ترجمان نہیں، اور اس کا ان کی جماعت سے کوئی تعلق نہیں۔

مریم اورنگزیب کا مزید کہنا تھا کہ تسنیم حیدر کے پاس ثبوت ہیں تو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے قانونی فورم پر پیش کریں۔

یاد رہے کہ معروف صحافی اور اینکرپرسن ارشد شریف کو 23 اکتوبر کو کینیا میں قتل کیا گیا تھا جہاں پولیس نے ابتدائی طور پر مؤقف اختیار کیا تھا کہ ’غلط نشاندہی‘ کے بنیاد پر واقعہ پیش آیا۔

واضح رہے کہ رواں برس پولیس نے ارشد شریف، اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کے صدر اور سی ای او سلمان اقبال، نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز کے سربراہ عماد یوسف، اینکر پرسن خاور گھمن اور ایک پروڈیوسر کے خلاف 8 اگست کو پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر شہباز گل کے چینل پر نشر کیے گئے ایک متنازع انٹرویو پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا تھا۔

ایک روز بعد وزارت داخلہ نے اس فیصلے کی وجہ کے طور پر’ایجنسیوں کی طرف سے منفی رپورٹس’ کا حوالہ دیتے ہوئے چینل کا این او سی کا سرٹیفکیٹ منسوخ کردیا تھا اور اس کے بعد ارشد شریف ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں