قومی احتساب بیورو (نیب) نے رئیل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے قریبی ساتھیوں کو 19 کروڑ پاؤنڈ (50 ارب روپے) کے تصفیے کے سلسلے میں یکم دسمبر کو طلب کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیب کے خط کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کو یکم دسمبر کی صبح 11 بجے نیب راولپنڈی ہیڈ کوارٹر میں اینٹی کرپشن کے نگران ادارے کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کو کہا گیا ہے۔

طلبی کے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 19 کے تحت برطانیہ سے موصول رقم اور اس کا ریکارڈ غیر قانونی طور پر سیل کرنے پر جاری کیا گیا۔

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ اختیارات کے غلط استعمال، مالی فوائد اور مجرمانہ طور پر اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے الزامات کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ علی ریاض ملک اور دیگر نے حکومت پاکستان کو فنڈز کی واپسی کے لیے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیہ کیا۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے مالک نے القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے موضع برکالا، تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم میں واقع 458 ایکڑ، 4 مرلے اور 58 مربع فٹ زمین عطیہ کی ہے، لہذا آپ کے پاس وہ معلومات اور ثبوت ہیں جو مذکورہ جرم سے متعلقہ ہیں۔

نوٹس میں ملک ریاض کو کہا گیا ہے کہ وہ تحصیل سوہاوہ میں 458 کنال اراضی کی خریداری کے حوالے سے مکمل ریکارڈ پیش کریں جس کے تحت بحریہ ٹاؤن نے القادر ٹرسٹ کو زمین عطیہ کی اور ان کی جانب سے منتقل کی گئی دیگر جائیداد کی تفصیلات فراہم کریں۔

غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق عمران خان کی اہلیہ القادر ٹرسٹ کے ٹرسٹیز میں سے ایک ہیں، نوٹس میں ملک ریاض کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے اس نوٹس کی تعمیل نہیں کی تو انہیں تعزیری نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

رواں سال جون میں وزیر داخلہ رانا ثناء للہ نے این سی اے اور ملک ریاض کے اہل خانہ کے درمیان طے پانے والے خفیہ معاہدے سے متعلق انکشاف کیا تھا۔

انہوں نے عمران خان اور ان کی اہلیہ پر منی لانڈرنگ کیس میں رئیل اسٹیٹ فرم کو تحفظ فراہم کرنے کے بدلے بحریہ ٹاؤن سے 5 ارب روپے اور سیکڑوں کنال زمین لینے کا الزام عائد کیا تھا۔

دسمبر 2019 میں، این سی اے نے 19 کروڑ پاؤنڈ کی سیٹلمنٹ کی پیشکش قبول کی تھی جس کے تحت برطانیہ کی ایک پراپرٹی 1 ہائیڈ پارک پلیس، لندن جس کی مالیت تقریباً 50 کروڑ پاؤنڈ تھی اور اس کے علاوہ وہ تمام رقم جو ملک ریاض کے منجمد اکاؤنٹس میں تھیں وہ سب شامل تھیں۔

این سی اے کو 10 کروڑ پاؤنڈ سے زیادہ کی کل رقم رکھنے والے 8 بینک اکاؤنٹس کو منجمد کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں جن کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ بیرون ملک رشوت ستانی اور بدعنوانی کے لیے استعمال کیے گئے، دسمبر 2018 میں معاملے کی سماعت کے بعد تقریباً 20 کروڑ کو منجمد کر دیا گیا تھا۔

اسی سال مارچ میں جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے لیے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے 460 ارب روپے کی پیشکش قبول کر لی تھی جس میں سندھ حکومت کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی زمین بحریہ ٹاؤن کو دینے کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا ۔

بعد ازاں سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ پر الزام تھا کہ انہوں نے این سی اے کی تحقیقات کے دوران بحریہ ٹاؤن سے اربوں روپے نقد اور سیکڑوں کنال زمین کے بدلے ملک ریاض کی مدد کی۔

وزیر داخلہ ثنا اللہ نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان کے مشیر شہزاد اکبر نے سارا معاملہ طے کرایا اور بحریہ ٹاؤن کے ذمے قومی خزانے کے 50 ارب روپے کو ایڈجسٹ کیا گیا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ عمران خان نے کیس بند کیے جانے سے قبل شہزاد اکبر کے ذریعے 5 ارب روپے رشوت وصول کی تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے 50 ارب روپے کے تحفظ کے بعد عمران خان اور ان کی اہلیہ کی ملکیتی ٹرسٹ کو 458 کنال زمین الاٹ کی جس مالیت 53 کروڑ روپے بنتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مزید 240 کنال فرح شہزادی عرف فرح گوگی کو منتقل کیے گئے جو کہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی قریبی دوست بتائی جاتی ہیں، یہی 458 کنال زمین نیب کی جانچ پڑتال کی زد میں ہے۔

ملک ریاض کو 24 نومبر کو جاری کیے گئے کال اپ نوٹس میں موضع برکالا، تحصیل سوہاوہ، ضلع جہلم میں 458 کنال اراضی کی خریداری کے حوالے سے اپنا بیان ریکارڈ کرانے کا کہا گیا ہے۔

نیب نے اس سے قبل سابق وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کے 21 ارکان کو نوٹس بھیجے تھے، ان کابینہ ارکان میں غلام سرور خان، مراد سعید، پرویز خٹک، شفقت محمود، شیریں مزاری، علی حیدر زیدی اور حماد اظہر نمایاں ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں