گزشتہ ہفتہ عشرہ سے ہر سو یہی تذکرہ ہے کہ عمران خان ملک میں جلد انتخابات کے انعقاد کے لیے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑ دیں گے اور یہ کسی بھی وقت ممکن ہے۔

گویا یہ منتخب اسمبلیاں نہیں بلکہ چکوال کی بنی ہوئی ریوڑھیاں ہیں جو نہایت لذیذ اور خوشبو دار ہوتی ہیں اور ان پر ہاتھ روکنا شوگر کے مریض کے لیے بھی مشکل ہوتا ہے۔

ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال ایسی نہیں کہ نئی روایات رقم کی جائیں یا نئی محاذ آرائی کے لیے کمر کس لی جائے۔ سنجیدہ حلقوں کے لیے یہ سوچ بچگانہ اندازِ فکر کے طور پر لی گئی ہے اس کی ایک نہیں کئی وجوہات ہیں اور سب سے بڑی وجہ ملک کی معاشی نمو اور خزانے کے علاوہ تجارتی خسارے پر کنٹرول نہ ہونا بھی شامل ہے۔

اگر سابق وزیرِاعظم کا یہ کہنا شامل کرلیا جائے کہ ہم ڈیفالٹ کرنے والے ہیں گویا ہم دیوالیہ پن کا شکار ہونے والے ہیں تو پھر سب یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ 200 معاشی ماہرین اور دیگر شعبہ جات کے ماہرین کی مہارت ساڑھے تین سال کی حکومت کوئی ایک بھی ایسا کام کیوں نہ کرسکی جس کی بنا پر قوم محترم سابق وزیرِاعظم کو نجات دہندہ کے طور پر کہیں جانے ہی نہ دیتی اور ارکان اسمبلی ان کی حمایت کرتے۔

ہمارے ملک میں امریکا، بھارت اور یہودیوں کے بارے میں رائے کو تبدیل کرنے کا ارادہ کرنے والے آج تک کامیاب نہیں ہوئے۔ یہ ایسی سوکھی لکڑیاں ہیں جن کو آگ لگا کر ہر ایک اس آگ سے ٹھنڈک حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ امر بھی حقیقت ہے کہ بعض معاملات میں حکومت اور عوام کی سوچ میں کبھی بھی یکسانیت پیدا نہیں ہوسکی اور نہ ہی ہوسکے گی بسااوقات آگ لگانے والا خود ہی اس سے جھلس جاتا ہے۔

وہ مخلوق جو انتخاب لڑتی ہے اس کو عوام نہیں کہا جاسکتا اور اس کی بہت سی وجوہات ہیں تاہم 10 ماہ میں یہ مخلوق دوبارہ انتخاب لڑنے سے نہ صرف گھبراتی ہے بلکہ ان کے بس کا روگ بھی نہیں کیونکہ 4 سے 5کروڑ روپے اب ایک الیکشن پر غیر سر کاری طورپر خرچ ہوتے ہیں تو بھلا کون محض ایک سال کے اندر اندر اتنی بڑی رقم خرچ کرنے کے لیے تیار ہوگا؟ اب تو پارٹی کے فنڈز کا بھی آڈٹ شروع ہوچکا ہے۔

صوبے وفاق سے مانگ رہے ہیں اور وفاق پوری دنیا کے سامنے تماشہ بن چکا ہے، کیا اپنا کیا غیر کوئی سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتا۔ سرکاری ادارے بزرگوں کو پینشن دینے سے انکاری ہیں۔ ہر کسی کو گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کسی نہ کسی چیز کو مؤخر کرنا پڑتا ہے یا کٹ لگایا جاتا ہے۔

گھی، چاول، گندم، دال، سبزی ہر کسی کے دائرہ استعمال سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ گوشت مرغی بس میں نہیں رہی، اسکول سرکار چلانے میں ناکام ہے اور ریاستی ذمہ داری کو بااثر لوگوں کا کاروبار بنا دیاگیا ہے۔ بچوں کی فیس دی جائے تو دوائی نہیں خریدی جاتی۔ اس لیے انتخابی مخلوق گلی محلے میں جاکر ذلیل و خوار ہونے کو تیار نہیں اور وہ بھی سال میں دو بار۔

فرض کریں ایسا یہ مخلوق کرنے کو تیار ہو بھی جائے تو کیا پنجاب اور پختونخوا کے حالات تبدیل ہوجائیں گے؟ اگر تیل، تانبا اور سونا بھی نکل آئے تو بھی ایک سال میں پیدوار شروع نہیں ہوسکتی،کم از کم 5 سال درکار ہیں تو کوئی ہے جو مزید مشکلات کا شکار لوگوں کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہونا چاہے گا؟

ممکن ہے پی ٹی آئی کو الٰہ دین کا چراغ پاک پتن کے قرب و جوار سے مل گیا ہو۔ بابا فریدکا کلام اگر کسی پر اثر کر جائے تو وہ کم از کم انتخابی سیاست سے کوسوں دُور بھاگ جائے مگر ہم تو ہیں ہی دو عملی کا شکار، قول و فعل کے تضاد کو یوٹرن کا نام بھی دیا جاسکتا ہے مگر یہ صوفی ازم کے پیروکار نہیں کرتے چہ جائیکہ یونیورسٹی قائم کی جارہی ہو۔

ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کو الٰہ دین کا چراغ مل گیا ہو
ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کو الٰہ دین کا چراغ مل گیا ہو

ہمارے دستور کے مطابق اگر معاشی حالات مخدوش ہوجائیں تو ایمر جنسی نافذ ہوسکتی ہے اور ایمر جنسی کے نفاذ کے ساتھ قومی اسمبلی اپنی معیاد ایک سال تک بڑھا سکتی ہے اور یہ اقدام غیر آئینی نہیں بلکہ عین آئین کے تابع اور اس کی روح کے مطابق ہوگا۔ 2 صوبائی اسمبلیاں اگر ٹوٹ جائیں تو مرکز یا وفاق کی صحت پر آئینی طورپر کوئی فرق نہیں پڑےگا۔

1988ء میں میر ظفر اللہ جمالی نے بطور وزیرِاعلیٰ بلوچستان صوبائی اسمبلی اپنی صوابدید کے مطابق تحلیل کر دی تھی۔ پھر معاملہ عدالت کے روبروگیا اور اسمبلی توڑنے کے اقدام کو غیر آئینی اور بدنیتی پر مبنی قرار دے دیا گیا۔

پرویز الٰہی بھی اگر اسمبلی برخاست کریں گے یا تحلیل کریں گے تو اسی آئینی دفعہ کے تحت ہی کرسکیں گے۔ ایسی اسمبلی جو اب تک محض اس خوف سے اجلاس جاری اور ملتوی کرتی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو اور کہیں ویسا نہ ہوجائے اور 4 ماہ سے صرف اسپیکر کے رحم وکرم پر ہو تو اس کا تحلیل ہونا عدالت میں تو جائے گا۔

یہ نیک نیتی تو نہیں کہ اسمبلی کا اجلاس برخاست نہ کیاجائے بلکہ ملتوی کیا جائے تو پھر معاملہ پچھلے انتخابات، عدالتی فیصلوں، عدالتی نظیروں اور بدنیتی کے ساتھ ہی عدالت کے روبرو ہوگا۔

یہی اسمبلی وزیرِاعلیٰ منظور وٹو اور گورنر چوہدری الطاف حسین نے بھی ملی بھگت کے ساتھ توڑی تھی۔ عدالت عالیہ نے وہی فیصلہ کیا تھا جو ہونا چاہیے تھا۔

اسمبلیاں تحلیل کرنے کے حوالے سے ظفر اللہ جمالی، منظور وٹو اور چوہدری الطاف حسین کی مثالیں موجود ہیں
اسمبلیاں تحلیل کرنے کے حوالے سے ظفر اللہ جمالی، منظور وٹو اور چوہدری الطاف حسین کی مثالیں موجود ہیں

سابق وزیرِاعظم عمران خان نے بھی ایسے ہی اقدامات اٹھائے تھے جس میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری اور صدرِ مملکت عارف علوی بھی شریک تھے۔ معاملہ بدنیتی اور آئین شکنی کا تھا۔

چاہیں تو پرویز الٰہی شوق پورا کرلیں، ممکن ہے معروضی حالات کے سبب ان کو نیک نیت کہا جائے مگر معاملہ ہوگا مشکل۔ جونیجو صاحب اور میاں نواز شریف کی اسمبلیوں کی بھی مثال دی جاسکتی ہے۔ مثال تو مولوی تمیز الدین کی اسمبلی کی بھی موجود ہے اور جسٹس منیر کا فیصلہ بھی زیرِ بحث آتا رہتا ہے۔

عمران خان اور پرویز الٰہی کی سوچ، حکمتِ عملی میں ہم آہنگی نہیں پائی جارہی، جس کی دیگر وجوہات اپنی جگہ مگر اب عمران خان جس فیس سیونگ کے چکر میں تھے اس کی ایک ہی راہ کھلی ہے کہ مارچ اپریل 2023ء میں پہلے انتخابات کی بات ہو اور پھر اسمبلی توڑنے کی یا مستعفی ہونے کی۔

عمران خان اور پرویز  الٰہی کی سوچ میں ہم آہنگی نہیں پائی جارہی
عمران خان اور پرویز الٰہی کی سوچ میں ہم آہنگی نہیں پائی جارہی

آئین کہتا ہے کہ 224 دفعہ کے تحت اگر اسمبلی برخاست، گویا مدت پوری کرکے برخاستگی ہونے سے 120 دن قبل کوئی نشست خالی ہو تو پھر ضمنی انتخاب نہیں ہوگا یعنی نشست خالی رہے گی اور مدت پوری ہوگی۔

جب یہ وقت آئے گا تو پھر دیکھیں گے مگر یہ اٹل حقیقت ہے کہ پختونخوا اور نہ ہی پنجاب اسمبلی کی اکثریت ابھی کوئی الیکشن نہیں چاہتی اور چونکہ تحریک انصاف گہرے پانیوں میں جاتی دیکھی جاسکتی ہے اس لیے یہی کہا جائے ’کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک‘۔

آخر میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ الیکشن ایک سال مؤخر تو ہوسکتے ہیں مگر اپنی مدت سے ایک دن پہلے بھی ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Mirza Azmat Ali Dec 08, 2022 11:45am
why this guy will dissolve the assembly !! he has been enjoying on 10 seats