بااثر طبقہ بھی مجرمان کے خلاف گواہی دینے سے کتراتا ہے، عدالت

اپ ڈیٹ 11 دسمبر 2022
جج نے مزید کہا کہ قانون خُلا میں کام نہیں کرتا ہے — فائل فوٹو: رائٹرز
جج نے مزید کہا کہ قانون خُلا میں کام نہیں کرتا ہے — فائل فوٹو: رائٹرز

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے مشاہدہ کیا کہ کراچی کی موجود صورتحال میں طاقت ور اور ایلیٹ افراد بھی روز مرہ جرائم کے کیسز میں مجرمان کے خلاف گواہی دینے سے کتراتے ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز انسداد دہشت گرد عدالت کے جج نے اسٹریٹ کرائم اور پولیس مقابلہ کیس کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کی، اسی دوران جج نے مختلف مقدمات میں جرم ثابت ہونے پر طالب حسین کو 10 سال قید کی سزا سنائی۔

گزشتہ سال سائٹ ایریا کے علاقے میں شہری وحید افضل کے ساتھ ڈکیتی کی کوشش کرنے پر طالب حسین کو مجرم قرار دیا گیا، اس نے پولیس مقابلے کے دوران ایک پولیس اہلکار اور ہیڈ کانسٹیبل پرویز اقبال کو زخمی کردیا تھا۔

فاضل جج نے دفاعی وکیل کے دلائل کو مسترد کردیا، وکیل نے کہا تھا کہ پولیس واقعے میں مقامی علاقے کے عینی شاہد کو عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہی اور ملزم طالب حسین کے خلاف صرف پولیس اہلکاروں کو گواہان کی حیثیت سے عدالت میں پیش کیا۔

تاہم بعد ازاں جج نے طالب حسین کو ڈکیتی کی کوشش کرنے اور بغیر لائسنس کے ہتھیار سے پولیس اہلکار کو زخمی کرنے کا مجرم قرار دے دیا۔

جج نے نشاندہی کی کہ ملزم نے پہلے ڈکیتی کرنے کی کوشش کی اور پھر پولیس اہلکار پر فائرنگ کرکے ایک پولیس اہلکار کو زخمی کیا اور انہیں ذمہ داریاں ادا کرنے سے روکا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ واقعہ ہجوم والے علاقے میں پیش آیا تھا تاہم ملزم کے اس اقدام سے معاشرے میں شہریوں میں خوف، دہشت اور عدم تحفظ پیدا ہوگیا ہے۔

جج نے مشاہدہ کیا کہ موجودہ کیس میں شواہد نے ایک سے دوسرے نکتے تک رہنمائی کی اور استغاثہ کے مؤقف میں کوئی گمشدہ ربط نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس لیے استغاثہ نے اپنے مقدمات کو کسی بھی معقول شکوک و شبہات سے بالاتر ثابت کیا تھا اور ملزم کو جرائم کا مرتکب پایا گیا، لیکن ملزم خود کو بےگناہ ثابت کرنے میں ناکام رہا۔

وکیل دفاع وزیر کھوسو نے کہا کہ ثبوت میں تضاد ہے، شکایت کنندہ اور استغاثہ کے عینی شاہد جو خود پولیس اہلکار تھے، انہوں نے اس سے قبل ایف آئی آر میں اپنے بیان کی اصلاح کرنے کی کوشش کی تھی لہٰذا ان کی گواہان پر شک ہے۔

وکیل نے مزید کہا کہ مبینہ طور پر جہاں واقعہ پیش آیا استغاثہ مقامی علاقے سے عینی شاہد ڈھونڈنے میں ناکام رہا۔

جج نے مزید کہا کہ قانون خلا میں کام نہیں کرتا ہے، معاشرے کے موجودہ حالات کو مدنظر رکھ کر قانون کو اپنانا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ روزہ مرہ کے جرائم کی وارداتوں میں بااثر طبقہ بھی مجرمان کے خلاف گواہی دینے سے کتراتا ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ ایسے مجرمان کے کیسز میں متاثرہ افراد یا شکایت کنندگان عدالت میں پیش ہونے کے بجائے مجرموں کو معاف کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، ایسی صورتحال میں مقامی علاقے کا کوئی شخص گواہ بننے کو تیار نہیں ہے۔

جج نے کہا کہ ایک جانب جہاں متاثرہ افراد اپنا کیس نہیں لڑ سکتے وہیں ایسی صورتحال میں متعلقہ کیس میں شکایت کنندہ نے بہادری اور جرأت کا مظاہرہ کیا ہے۔

تاہم عدالت نے ڈکیتی کرنے کی کوشش کے جرم میں 3 سال قید کی سزا سنائی اور 5 ہزار روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا، جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں مجرم کو مزید 3 ماہ قید کی سزا بھگتنا ہوگی۔

جج نے فیصلہ سناتے ہوئے پولیس مقابلے میں اہلکار کو زخمی کرنے اور انہیں ذمہ داریاں ادا کرنے سے روکنے پر مجرم کو 10 سال قید کی سنائی۔

مجرم کو 15 ہزار روپے جرمانہ ادا کرنے یا مزید 9 ماہ قید میں رہنے کا بھی حکم دیا گیا۔

عدالت نے ہیڈ کانسٹیبل پرویز اقبال کو زخمی کرنے پر 2 سال قید کی سزا اور 10 ہزار روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔

انہوں نے واقعے میں استعمال ہونے والا اسلحہ 9 ایم ایم پستول رکھنے پر مزید 5 سال قید اور 3 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی، جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں مزید 3 ماہ کی قید بھگتنا ہوگی۔

عدالت نے پہلے ہی مجرم کے دو مبینہ ساتھیوں حامد عرف فیض محمد اور امتیاز عرف خان کو موجودہ کیس میں اشتہاری مجرم قرار دے دیا تھا۔

متاثرہ شخص وحید افضل کی شکایت پر سائٹ اے تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 392 (ڈکیتی)، 353 (پولیس مقابلہ)، 324 (قتل کرنے کی کوشش) اور 337 (ایف) (دوم) (سجا) کے ساتھ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 (دہشت گرد سرگرمیوں کی سزائیں) اور سندھ آرم ایکٹ 2013 کی دفعہ 23 (ایک-اے) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں