پنجاب میں پولیس افسران کے تبادلے اور تعیناتیوں میں ’سیاسی مداخلت‘ جاری ہے جہاں وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کے ’دباؤ‘ کی وجہ سے 24 گھنٹوں کے اندر 18ویں گریڈ کے دو افسران کو لاہور میں کینٹ ڈویژن آپریشن کا سربراہ تعینات کردیا گیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق 24 نومبر کو سپریم کورٹ کی جانب سے وفاق اور صوبائی حکومتوں کو پولیس آرڈر 2002 کی ’کھلی خلاف ورزی‘ پر افسران کی تبادلوں اور تعیناتیوں کا ریکارڈ پیش کرنے کا نوٹس جاری کرنے کے باوجود پنجاب حکومت غیر قانونی سرگرمیوں سے باز نہیں آئی۔

لاہور میں جرائم کے کیسز میں اضافے کے باوجود کینٹ کی تقرریاں ایس پیز کی حالیہ تبدیلیوں کے بعد کی گئی ہیں۔

شہریوں کو ریلیف فراہم کرنے کے بجائے افسران اپنے رابطے استعمال کرکے پنجاب بالخصوص لاہور میں من پسند عہدوں کو برقرار رکھنے میں مصروف ہیں۔

ایک عہدیدار نے بتایا کہ دو نئے ایس پیز کی تقرریوں نے ایک بار پھر پنجاب پولیس کے سربراہ کے کردار پر بحث چھیڑ دی ہے جنہیں پولیس آرڈر 2002 کے تحت پولیس افسران کے تعیناتیوں اور تبادلے کرنے کا اختیار حاصل ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 11 دسمبر کو محکمہ پولیس نے 18ویں گریڈ کے افسر ارتضیٰ کومل کا تبادلہ کرکے انہیں لاہور کینٹ آپریشن ایس پی تعینات کر دیا۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی تقرری کا حکم تب جاری کیا گیا جب سینٹرل پولیس آفس (سی پی او) کو وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ سے ان کی فوری تعیناتی کے لیے کال موصول ہوئی تھی۔

افسر اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کی تیاری کررہے تھے کہ سی پی او کو وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ سے ایک اور کال موصول ہوئی جس میں افسر کی تقرری کا حکم منسوخ کرنے کا حکم دیتے ہوئے اگلے حکم کا انتظار کرنے کا کہا گیا۔

کچھ منٹ بعد آئی جی آفس کو وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ سے ایک اور کال موصول ہوئی جس میں صدر ڈویژن انویسٹی گیشن ایس پی رضا تنویر کا تبادلہ کرکے انہیں کینٹ ڈویژن آپریشن ایس پی تعینات کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔

سی پی او نے وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے نیا نوٹی فکیشن جاری کیا اور ایس پی رضا تنویر کو کینٹ کا نیا ایس پی آپریشن تعینات کیا گیا، یہ ان کا صوبے میں مسلسل تیسرا تبادلہ تھا، اس سے قبل انہوں نےچند ماہ بطور سول لائنز ایس پی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں اور کارکردگی کے مسائل کی وجہ سے ان کا تبادلہ کردیا گیا لیکن بعد ازاں انہیں ایس پی صدر ڈویژن انویسٹی گیشن تعینات کیا گیا۔

ڈویژنل ایس پی کی تقرریوں میں سیاسی مداخلت سے واضح ہوتا ہے کہ پنجاب پولیس چیف کا کسی بھی سطح پر ان تبادلے اور تعیناتیوں کے حوالے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

انہوں نے سیاسی مداخلت کے حوالے سے ایک اور مثال دیتے ہوئے کہا کہ کچھ روز قبل پنجاب حکومت نے راجن پور کے ڈی پی او احمد محی الدین کے تبادلے کی ہدایات جاری کی تھیں جب وہ کیچ کے علاقے میں جرائم پیشہ گینگ کے خلاف آپریشن کی قیادت کررہے تھے۔

بعد ازاں 9 دسمبر کو فیصل گلزار کو راجن پور کا نیا ڈی پی او تعینات کرنے کا نیا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔

کچھ روز قبل 12 دسمبر کو سی پی او کی جانب سے فیصل گلزار کی تقرری کا نوٹیفکیشن منسوخ کرنے کے احکامات جاری کرنے کے ساتھ حمد محی الدین کو ڈی پی او راجن پور کے طور پر برقرار رکھنے کا ایک اور نوٹی فکیشن جاری کیا۔

عہدیدار نے کہا کہ سی پی او نے گزشتہ چند دنوں کے دوران تین افسران کی تقرریوں کو منسوخ کیا جس کے بعد ان کی نئی تعیناتیوں کا نوٹیفکیشن وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کی ’فون کالز‘کے بعد جاری کیا گیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں