رواں برس نومبر میں اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے بھجوائی جانیوالی ترسیلات زر میں 14 فیصد کمی ہوئی ہے۔

رواں مالی سال 2022-2023 کے پہلے 5 ماہ کے دوران رقوم کی آمد میں 9.6 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری حالیہ اعدادوشمار کے مطابق نومبر میں کمی کے ساتھ ترسیلات زر 10 کروڑ ڈالر تک محدود رہے جو گزشتہ سال کے اسی مدت کے دوران 50 کروڑ ڈالر تھے۔

رواں سال اکتوبر میں 2 ارب 21 کروڑ ڈالر کے مقابلے تارکین وطن کی جانب سے بھجوائی جانیوالی ترسیلات زر میں 5 فیصد کمی ہوئی ہے۔

رواں مالی سال 2022-2023 میں جولائی سے نومبر کے دوران ترسیلات زر ایک ارب 27 کروڑ ڈالر (9.6 فیصد) سے کم ہو کر 12 ارب ڈالر رہ گئیں جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران 13 ارب 28 کروڑ ڈالر تھیں۔

بینکرز اور کرنسی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں مصنوعی کمی کی وجہ سے ملک کو بھاری نقصان ہوسکتا ہے۔

انٹربینک میں ڈالر کا موجودہ ریٹ 224.71 روپے تک محدود ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ اس سے کہیں زیادہ ہے۔

کرنسی ماہرین اور بینکرز اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ملک میں ترسیلات زر میں کمی کے نتیجے میں ڈالر کی شرح میں وسیع فرق آسکتا ہے، گرے مارکیٹ میں فی ڈالر 225 روپے ہے جبکہ بینک میں فی ڈالر 224.71 روپے ہے۔

عارف حبیب لمیٹڈ کے ریسرچ کے سربراہ طاہر عباس کا کہنا ہے کہ انٹربینک میں شرح مبادلہ اور اوپن مارکیٹ میں 10 فیصد کا فرق ، ترسیلات زر میں کمی کی بڑی وجہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ غیر سرکاری ذرائع سے بھیجی جانے والی ترسیلات کی اتنی ہی رقم کے لیے اووسیز کو 10 فیصد زیادہ شرح مل رہی ہے، جس کی وجہ سے ترسیلات زر کے سرکاری اعداد و شمار میں کمی ہوئی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کرنسی میں واضح فرق کے درمیان برآمد کنندگان امریکی ڈالر محدود رکھے ہوئے ہیں، اس فرق سے نمٹنے کے لیے حکومت کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

شرح مبادلہ بالخصوص مرکزی بینک کے زرمبادلہ ذخائر کے لیے حکومت اور اسٹیٹ بینک فری مارکیٹ میکینزم کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

تاہم گورنر اسٹیٹ بینک نے حال ہی میں یقین دہانی کروائی تھی کہ پاکستان رواں سال صرف 4 ارب 70 کروڑ ڈالر ادا کرے گا اور دیگر بقیہ واجبات بعد میں ادا کر دیے جائیں گے، لیکن نتیجتاً مارکیٹ غیر متحرک رہی ہے۔

کرنسی ماہرین نے ترسیلات زر کا زیادہ تر انحصار سیاسی استحکام کی شاندہی کرتے ہوئے کہا کہ صرف آمدن ہی مارکیٹ کو مستحکم کر سکتی ہے۔

ماہرین نے اووسیز کی جانب سے ڈالر کی آمد میں کمی کی مزید وجوہات کی نشاندہی کی، پاکستان کویت انویسٹمنٹ کمپنی میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے سربراہ سمیع اللہ طارق نے کہا کہ اس کی تین بڑی وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں مہنگائی کی وجہ سے آمدنی میں کمی، پاکستان میں انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے درمیان واضح فرق اور شرح سود میں اضافے کی وجہ سے عالمی سطح پر سرمایہ کاری کے بہتر مواقع شامل ہیں۔

سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ اس وقت حکومت کو بڑے مسائل کا سامنا ہے ، ان سے نمٹنے کے لیے ملک میں فری مارکیٹ شرح مبادلہ کی اشد ضرورت ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں