ہم میں سے کئی لوگ ایک سے زیادہ زبانیں بولتے ہیں یا جانتے ہیں لیکن پھر بھی ہم اپنی زندگیوں میں ان زبانوں کی اہمیت اور ان کے کردار سے واقف نہیں ہوتے۔

ہم یہ تصور کرلیتے ہیں کہ زبان بس رابطے کا ایک ذریعہ ہے اور ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری شناخت، ثقافت اور تاریخ کی جڑیں بھی اس زبان سے جڑی ہوتی ہیں۔ یہ زبان ہی ہوتی ہے جس کے ذریعے ہم اپنی شناخت بیان کرتے ہیں، اپنے حقوق کا دفاع کرتے ہیں اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔

اپنی زبانوں کے تحفظ میں ہماری عدم دلچسپی یا اس طرح کے کثیر الجہتی مسائل کی کم فہمی عالمگیریت کے بڑھتے ہوئے اثرات کے ساتھ مل کر ہماری ثقافت اور خاص طور پر مقامی زبانوں کے وجود کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ اس طرح ہر گزرتے دن کے ساتھ علاقائی اور مقامی زبانوں کو لاحق خطرات میں کئی گنا اضافہ ہو رہا ہے۔

اپنی زبان کے تحفظ کے حوالے سے ہماری عدم دلچسپی یا اس کثیر الجہت مسئلے کے حوالے سے ہماری کم فہمی عالمگیریت کے اثرات کے ساتھ مل کر ہماری ثقافت اور خاص طور پر ہماری مقامی زبانوں کی بقا کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ یوں ہر گزرتے دن کے ساتھ مقامی زبانوں کو درپیش خطرات میں کئی گنا اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

ماہرین لسانیات نے پیشگوئی کی ہے اگلے 100 برسوں میں 90 فیصد زبانیں معدوم ہوجائیں گی اور دنیا میں صرف 6 زبانیں باقی بچیں گی۔ یہ اس معاملے کی سنگینی کا واضح اشارہ ہے۔ اگر یہ پیشگوئی درست ثابت ہوتی ہے تو پھر ان لوگوں کا کیا ہوگا جو صرف ایک ہی زبان بولتے ہیں اور جن کی تاریخ، ثقافتی ورثہ، روایات اور اقدار سب اس ایک زبان سے ہی جڑی ہوئی ہیں۔ آج بھی دنیا کے 40 فیصد افراد صرف اپنی مادری زبان ہی بولتے ہیں جبکہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا کی نصف آبادی کم از کم 2 زبانیں بول یا سمجھ سکتی ہے۔

کچھ لوگوں کے نزدیک شاید ایک ہی زبان میں سب سے بات کرنا ایک اچھا خیال ہو لیکن میرے نزدیک تو ایک غیر متنوع دنیا جہاں بہت کم زبانیں ہوں ایک بہت ہی خوفناک خیال ہے۔

زبانوں کی بہتات

زبانیں اقوام یا براعظموں میں یکساں طور پر تقسیم نہیں ہیں۔ کچھ خطوں میں لسانی تنوع بہت زیادہ ہے اور کہیں بہت کم۔ اس کی بہترین مثال پاپوانیو گینی ہے۔ ورلڈ اٹلس کے مطابق یہ لسانی طور پر دنیا کا سب سے زیادہ متنوع ملک ہے۔ یہاں تقریباً 840 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ان میں سے کچھ زبانیں تو بہت کم لوگ بولتے ہیں اور بعض زبانوں کے حوالے سے تو یہ تعداد ایک ہزار سے بھی کم ہے۔

ایتھنولوگ کو دنیا میں زبانوں کی جامع ترین کیٹلاگ کہا جاتا ہے۔ اس کے تازہ ایڈیشن کے مطابق دنیا بھر میں موجود 6 ہزار 909 زبانوں میں سے یورپ میں صرف 291 زبانیں بولی جاتی ہیں جبکہ ایشیا میں 2 ہزار 197 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایشیا میں سب سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں، اس کے بعد افریقہ کا دوسرا نمبر ہے جہاں تقریباً 2 ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں۔ امریکا اور اوشینیا میں ایک، ایک ہزار اور پھر یورپ میں 291 زبانیں بولی جاتی ہیں۔

پاکستان کے لیے درج شدہ زبانوں کی تعداد 77 ہے اور یہ تمام زندہ زبانیں ہیں جنہیں بولنے والے لوگ آج بھی موجود ہیں۔ ان زبانوں میں سے 68 زبانیں مقامی جبکہ 9 غیر مقامی زبانیں ہیں۔

صوبائی زبانوں کے علاوہ ان زبانوں میں بلتی، شینا، مارواڑی، کھوار اور دیگر زبانیں شامل ہیں۔ ان میں سے 9 زبانوں کو بولنے والوں کی کم ہوتی ہوئی تعداد کے پیش نظر خطرے سے دوچار زبانیں قرار دیا گیا ہے جبکہ 2 زبانوں کو شدید خطرے کا شکار زبانیں قرار دیا گیا ہے۔

یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق پنجابی جیسی اہم زبان کو بھی خطرات لاحق ہیں کیونکہ پاکستان میں اس زبان کے فروغ کے لیے کوئی مؤثر حکمتِ عملی ترتیب نہیں دی گئی۔

مجھے کسی بھی معاشرے اور اس کی ترقی میں زبان کے کردار کا احساس پہلی مرتبہ 2009ء میں ہوا جب مجھے ریاستی سطح کی ایک کانفرنس منعقد کروانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس کانفرنس کا عنوان ’Kashmiri Vernaculars: Development and Identity‘ [کشمیری زبانیں: ترقی اور شناخت] تھا۔ یہ کانفرنس آزاد جموں و کشمیر کی متنوع آبادی کی جانب سے بولی جانے والی زبانوں کے حوالے سے تھی۔

اس کانفرنس کے میزبان ادارے انسٹیٹوٹ فار ڈیولپمنٹ اسٹڈیز اینڈ پریکٹسز پاکستان (آئی ڈی ایس پی پی) نے پاکستان بھر سے معروف ماہرین لسانیات بشمول ڈاکٹر طارق رحمٰن، مرحوم ڈاکٹر سید یوسف بخاری اور دیگر کو لسانیات کے حوالے سے اپنی تازہ تحقیق پیش کرنے کے لیے مدعو کیا تھا۔

میں نے 2010ء میں ان تحقیقوں کو مرتب کرکے ’کشمیری بولیاں: ترقی اور شناخت‘ کے عنوان سے شائع کیا تھا۔ میں نے اس کانفرنس میں اپنی تحقیق بھی پیش کی تھی جو مقامی زبانوں، ثقافت اور شناخت کے درمیان مضبوط تعلق کے حوالے سے تھی۔ میں نے پالیسی سازوں اور اداروں پر زور دیا تھا کہ وہ مقامی زبانوں کے تحفظ کے لیے کام کریں اور درست سمت میں کوششیں کرتے ہوئے پہلے مرحلے میں مقامی زبانوں کی حفاظت اور فروغ کے لیے کام کریں تاکہ ثقافتی شناخت کا تحفظ ممکن بنایا جاسکے۔

بس اسی وقت سے میں نے مقامی اور علاقائی زبانوں کی ترویج اور تحفظ کے حوالے سے اقدامات میں گہری دلچسپی لینا شروع کی۔

کشمیر اور گلگت بلتستان میں زبانوں کے تحفظ کی کوششیں

ابھی حال ہی میں، مجھے ایک پراجیکٹ کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا جو بنیادی طور پر صلاحیت سازی کے تربیتی پروگرام کے لیے تیار کیا گیا تھا تاکہ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے خطوں میں اقلیتی گروہوں کی طرف سے بولی جانے والی خطرے سے دوچار زبانوں کو محفوظ رکھا جاسکے۔ اس میں زبان کو دستاویزی صورت میں لانے کے طریقوں کے بارے میں علم اور بنیادی مہارتوں کی منتقلی کے علاوہ زبان کو دستاویزی صورت میں لانے کے لیے معلومات اور بنیادی صلاحیتوں کی منتقلی بھی شامل تھی۔

اس پروگرام میں آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی سرکاری یونیورسٹیوں پر توجہ دی گئی تھی۔ اس منصوبے کے تحت 27 افراد کو بنیادی لسانی تجزیے، زبان کو دستاویزی صورت میں لانے کے ضروری طریقوں، اس حوالے سے درکار سافٹ ویئر کے استعمال اور لسانی ڈیٹا کے انتظام کی مہارتوں میں تربیت دی گئی اور بعد میں انہیں ان مہارتوں پر عمل کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔

ان تربیت یافتہ فیکلٹی ممبران اور کنسلٹنٹس نے گلگت بلتستان کے اضلاع ہنزہ، نگر اور اسکردو کا دورہ کیا اور ڈیٹا اکٹھا کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے کے لیے شینا، کھوار، واخی، بلتی، بروشاسکی اور ڈوماکی زبان بولنے والوں کے ساتھ کافی وقت گزارا۔

اپنے فیلڈ اسائنمنٹ کے بعد انہوں نے جمع کیے گئے ڈیٹا کی تشریح کی اور اس کے بعد ورکشاپ، سیمینار اور یہاں تک کہ اپنی متعلقہ یونیورسٹیوں اور کمیونٹیز میں زبان کو دستاویزی صورت میں لانے کے بارے میں آگاہی واک جیسی سرگرمیوں کا انعقاد کیا۔

پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالقادر خان کے مطابق، کُل 35 فیکلٹی ممبران اور 180 طلبا اور لینگوئج ایکٹوسٹس کو 7 متعلقہ یونیورسٹیوں میں ورکشاپس کے ذریعے تربیت دی گئی۔ 2 پانچ روزہ ورکشاپس کا انعقاد بھی کیا گیا جن میں سے ایک کشمیر میں مقیم شرکا کے لیے آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی میں اور دوسری گلگت بلتستان ریجن کے لیے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں منعقد کی گئی۔ اس کے علاوہ اس پروگرام کے تحت طلبا اور مقامی کمیونٹی کے لیے 3 آگاہی سیمینار بھی منعقد کیے گئے۔

ان مطالعات کے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی کی رجسٹرار اور اس منصوبے کی شریک پرنسپل انوسٹی گیٹر ڈاکٹر عائشہ سہیل کا کہنا تھا کہ ان خطوں میں بولی جانے والی زیادہ تر زبانیں غیر دستاویزی ہیں، ان کی کوئی گرامر یا لغت نہیں ہے اور یہ اسکولوں میں بھی نہیں پڑھائی جاتی ہیں۔ ان زبانوں کے بولنے والے اردو اور انگریزی زبانوں کی طرف منتقل ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں ہماری قیمتی ثقافت، روایات اور مقامی اقدار کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔

علاقائی زبانوں کو درپیش خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے اور انہیں دیگر علاقوں میں بھی شروع کرنا چاہیے۔

آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان خاص طور پر اپنی مقامی زبانوں کے فروغ اور انہیں دستاویزی صورت میں لانے کے ذریعے اپنے ورثے، مظاہرِ فطرت اور ثقافتی تنوع کو محفوظ رکھنے کے لیے حکومتی سرپرستی کے خواہاں ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی مدد کی جائے اور اسی طرح کی کوششیں دوسرے صوبوں میں بھی شروع کی جائیں۔


یہ مضمون 8 جنوری 2023ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں