مصنوعات کی قیمتوں کا تعین ہائی کورٹس کا کام نہیں، عدالت عظمیٰ

اپ ڈیٹ 01 فروری 2023
آئین کے تحت ہائی کورٹس کو سپریم کورٹ کے مقابلے از خود نوٹس لینے کا اختیار نہیں ہے—فائل فوٹو ایس سی ویب سائٹ
آئین کے تحت ہائی کورٹس کو سپریم کورٹ کے مقابلے از خود نوٹس لینے کا اختیار نہیں ہے—فائل فوٹو ایس سی ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ مویشیوں اور ڈیر ی مصنوعات کی قیمتوں کا تعین کرنا ہائی کورٹس کا کام نہیں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن نے تحریری فیصلے میں کہا کہ آئین کی دفعہ 199 کے تحت ہائی کورٹس کو سپریم کورٹ کے مقابلے از خود نوٹس لینے کا اختیار نہیں ہے، تاہم عدالت عالیہ نے ڈیری اور پولٹری مصنوعات کی برآمدات پر پابندی لگا کر سلسلہ وار از خود احکامات جاری کیے۔

موجودہ کیس میں پشاور ہائی کورٹ نے 16 ستمبر 2021 کو حکومت خیبر پختونخوا کو حکم دیا کہ مال مویشی، ڈیری اور پولٹری کی مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے تاکہ ایک فارمولے کے تحت ان کا جائزہ لیا جاسکے کہ لائیو اسٹاک کی ذیلی مصنوعات مثلاً چارے، اوجھڑی، پروں، پایوں/پروں کی قیمت میں کہاں کٹوتی کی گئی۔

سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے جسٹس اعجاز الاحسن نے قرار دیا کہ مصنوعات کی برآمد یا درآمد پر پابندی لگانا ہائی کورٹ کا دائرہ کار نہیں بلکہ یہ خصوصی طور پر حکومت کا اختیار ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ہائی کورٹس کو آئین کی دفعہ 199 کے تحت ایسا حکم دے کر اپنے اختیار سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے جو نہ صرف از خود نوٹس کے اختیار کا استعمال ہو بلکہ حکومتی دائرہ کار پر بھی قبضہ ہو۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ آئین کی دفعہ 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار صرف عدالت عظمیٰ کے پاس ہے، ہائی کورٹ نے کسی قانون یا مثال کا حوالہ نہیں دیا جس کی بنیاد پر اس نے یہ اختیار استعمال کیا، ہائی کورٹ مصنوعات کی قیمتیں بھی معین کرنے کی اہل نہیں ہیں۔

فیصلے میں قرار دیا گیا کہ ضرورت پڑنے پر واحد طریقہ یہ ہے کہ اگر محکمے اپنا کام نہیں کررہے تھے تو حکومت کو ہدایت کی جائے کہ جو کچھ قانون کے تحت درکار ہے وہ کرے۔

اسی طرح دفعہ 199 کے تحت بھی ہائی کورٹ قیمتوں کے تعین کا فارمولا تشکیل نہیں دے سکتی کیوں کہ قانون کے تحت اس کی اجازت نہیں اور یہ آئین کے تحت دیے گئے اختیارات کے اصول کے بھی خلاف ہے۔

انہوں نے مزید لکھا کہ ہائی کورٹ کا حکم نہ صرف دفعہ 199 کے دائرہ کار کے بلکہ قانون کے بنائے اصول کے بھی خلاف ہے، مزید برآں ہائی کورٹ قیمتوں کے حساب کتاب کے لیے بھی فارمولہ فراہم نہیں کرسکتیئ نہ ہی اس فارمولے پر عملدرآمد کے لیے پرائسنگ کمیٹی تشکیل دے سکتی ہے۔

اس طرح کے معاملات واضح طور پر حکومت سے متعلق ہیں اور انہیں ریگولیٹ کرنے کے لیے پالیسی میکر پر چھوڑ دینا چاہیے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کا ماننا یہ ہے کہ ہائی کورٹ نے قانون کا غلط اطلاق کیا اور اس کے حکم میں دائرہ کار کی غلطیاں تھیں جو مداخلت کی متقاضی تھیں چنانچہ عدالت عظمیٰ عدالت عالیہ کا حکم کالعدم قرار دیتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں