پنجاب حکومت کے تشکیل کردہ جوڈیشل کمیشن نے 25 مئی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ریلی کے دوران پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنان پر تشدد کی تحقیقات میں اُس وقت کے ڈی ایس پی، ایس ایچ اور اور ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر کو قصوروار جبکہ دیگر سول اور پولیس بیوروکریسی کو ’بے گناہ‘ قرار دے دیا جن پر پی ٹی آئی الزامات عائد کرتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کمیشن نے 35 صفحات پر مکمل انکوائری رپورٹ مکمل کرلی ہے، جس کی سربراہی جسٹس ریٹائرڈ سید شبر رضا رضوی نے کی۔

اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے گزشتہ برس ستمبر میں پنجاب ٹریبونل آف انکوائری آرڈیننس 1969 کی دفعہ 3 کے تحت ٹریبونل تشکیل دیا تھا۔

سابق وزیر اعلیٰ نے ایک رکنی ٹریبونل کو ہدایت دی تھی کہ وہ 25 مئی کو لانگ مارچ کے دوران ہونے والے مبینہ تشدد کے حقائق کی نشاندہی کریں اور صورتحال خراب کرنے والے ذمہ داروں کا تعین بھی کریں۔

رپورٹ کے مطابق یہ کمیٹی اس وقت تشکیل دی گئی تھی جب پی ٹی آئی نے اُس وقت کے چیف سیکریٹری، آئی جی پولیس، لاہور پولیس چیف اور دیگر افسران پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے پارٹی رہنماؤں اور ہزاروں کارکنوں پر شدید تشدد کیا تھا۔

پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ پنجاب پولیس نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کی ایما پر پی ٹی آئی کارکنان پر تشدد کیا تھا۔

پی ٹی آئی نے اُس وقت کے چیف سیکریٹری، آئی جی پولیس اور لاہور سٹی پولیس کے چیف پر براہ راست ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

ٹریبونل کی حقائق تلاش کرنے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اُس وقت کے لاہور سمن آباد سرکل کے ڈی ایس پی میاں افضال اور سمن آباد پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او فرقان محمود پی ٹی آئی کے سینئر رہنما میاں اسلم اقبال کے گھر بلااجازت گھسنے میں ملوث تھے۔

رپورٹ میں شواہد اور گواہوں کی بنیاد پر ان دونوں پولیس افسران کو اختیارات کے ناجائز استعمال کا ذمہ دار جبکہ دیگر تمام افراد کو بے گناہ قرار دے دیا۔

ٹریبونل نے اُس وقت کی وزیر صحت پنجاب اور پی ٹی آئی کی سینئر رہنما پروفیسر ڈاکٹر یاسمین راشد کے الزامات کو بھی مسترد کردیا، جنہوں نے الزام لگایا تھا کہ پولیس نے ان کی گاڑی کو زبردستی روکا، انہیں اور اس کی بہن آمنہ کو ٹمبر مارکیٹ لاہور میں مارا پیٹا۔

انہوں نے اے ایس آئی ذوالفقار پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے انہیں کار سے باہر کھینچا تھا، اور کہا تھا کہ انہوں نے اپنی بہن اور بیٹی کو آگے بڑھ کر پولیس اہلکار سے بچایا تھا۔

انکوائری رپورٹ کے ایک حصے میں ٹریبونل نے صوبے کے کئی حصوں میں پُرامن مظاہرین پر تشدد کے الزامات کی تصدیق کی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ جو کچھ ریکارڈ دستیاب تھا، یہ کہا جاسکتا ہے کہ صوبے بھر میں پرُامن مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

رپورٹ کے مطابق کچھ افراد کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا، اسی طرح گھروں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی بھی کی گئی۔

ٹریبونل نے رپورٹ میں کہا کہ گھر میں گھسنے اور رات کو گھر توڑنے کے جرائم بھی ہوئے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اس طرح پاکستان کے آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق اور زمین سے متعلق قانونی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں