اراکین قومی اسمبلی نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی اتحاد کی ضرورت پر زور دیا ہے تاہم اس مسئلے کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے اسمبلی اجلاس کے دوران متضاد آرا سامنے آئیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سانحہ پشاور پر بحث کے دوسرے روز قومی اسمبلی میں دہشت گردوں کے خلاف نئے فوجی آپریشن کے آپشن پر واضح طور پر تقسیم نظر آئی، اس آپشن کی مخالفت کرنے والے اراکین کی اکثریت نے دہشتگردوں کے خلاف سابقہ آپریشنز کی افادیت پر سوال اٹھایا۔

اراکین اسمبلی نے عسکریت پسندوں کے لیے مفاہمت کی پالیسی پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی گزشتہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا، انہوں نے اجلاس کے دوران ایوان سے وزرا کی عدم موجودگی کی جانب اسپیکر اسمبلی راجا پرویز اشرف کی توجہ بھی مبذول کرائی۔

وزیرستان سے تعلق رکھنے والے آزاد رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے ان افراد اور اداروں کا تعین کرنے کے لیے کمیشن کے قیام کی تجویز دی جنہوں نے گزشتہ 40 برسوں کے دوران ناقص افغان پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔

پشاور پریس کلب کے باہر پولیس اہلکاروں کی جانب سے کیے گئے احتجاجی مظاہرے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اگر آپ کی پولیس فورس احتجاج شروع کر دیتی ہے تو اس سے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ باآسانی لگایا جا سکتا ہے، افسوس ہے کہ ریاست پر پولیس کو بھی بھروسہ نہیں ہے‘۔

انہوں نے دہشت گردی کے لیے صرف افغانوں کو مورد الزام ٹھہرانے کے رجحان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ماضی کے حکمرانوں نے طالبان کو ہیرو کے طور پر پیش کیا، انہوں نے اس وقت ملک کو افغان جنگ میں دھکیل دیا تھا جب ان پر امریکی ڈالروں کی بارش ہو رہی تھی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’جب طالبان نے افغانستان میں اقتدار سنبھالا تو ہم نے بطور ریاست جشن منایا، پہلے پاکستان کا الزام تھا کہ اس سے قبل افغانستان میں بھارت نواز حکومت تھی جس نے پاکستان میں ٹی ٹی پی اور دہشت گردی کی حمایت کی، اب اس ٹی ٹی پی کی حمایت کون کر رہا ہے جب افغانستان میں ہماری پسندیدہ حکومت ہے، یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ جب تک افغانستان میں طالبان کی حکومت نہیں ہے امن نہیں ہو سکتا‘۔

پی ٹی آئی حکومت کے دوران فوجی قیادت کی جانب سے پارلیمنٹ کو دی جانے والی ان ہاؤس بریفنگ کا حوالہ دیتے ہوئے محسن داوڑ نے کہا کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ طالبان کس کے ضمانت پر واپس آئے ہیں اور انہیں کہاں سے سپورٹ مل رہی ہے۔

انہوں نے افغان پالیسی کی سمت درست کرنے پر زور دیتے ہوئے خبردار کیا کہ بصورت دیگر پاکستان میں افغانستان کا ’ایکشن ری پلے‘ ہوگا۔

تاہم جے یو آئی (ف) سے تعلق رکھنے والے وزیر برائے مذہبی امور مولوی عبدالشکور نے دہشت گردوں کے خلاف ایک نیا فوجی آپریشن شروع کرنے کے خیال کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قبائلی علاقوں میں مزید تباہی پھیلے گی۔

انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کے وزرا عسکریت پسندوں کو بھتہ دیتے رہے ہیں۔

اس سے قبل ایوان میں بحث کا آغاز کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر راجا ریاض نے گزشتہ 2 ادوار میں پی ٹی آئی کی زیرقیادت خیبرپختونخوا حکومت کو سیکیورٹی مقاصد کے لیے فراہم کی گئی 400 ارب روپے سے زائد رقم کے آڈٹ کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ہونے کے باوجود پشاور اب بھی سکیورٹی کیمروں سے محروم ہے، صوبے پر 10 سال حکومت کرنے کے بعد، آج پی ٹی آئی شکایت کر رہی ہے کہ ان کے پاس دہشت گردی سے لڑنے کے وسائل نہیں ہیں۔

گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی سائرہ بانو نے افغان مہاجرین کو جلد از جلد ان کے ملک واپس بھیجنے کا مطالبہ کیا۔

بعد ازاں ایوان کا اجلاس جمعہ کی صبح 11 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں