حکومت نے عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کی ایک اور شرط پوری کرتے ہوئے گریڈ 17 سے 22 تک کے افسران کو بینک اکاؤنٹ کھولنے کے لیے اثاثے ظاہر کرنا لازمی قرار دے دیا۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق اس نئے قانون کے تحت تمام سرکاری ملازمین پر اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ اور انکم ٹیکس آرڈیننس کا اطلاق ہو گا اور 17ویں گریڈ سے 22ویں گریڈ کے تمام افسران اپنی معلومات بینکنگ کمپنیز سے شیئر کرنے کے پابند ہوں گے۔

ایف بی آر بینکوں کو سول سرونٹس کے اثاثوں کی تفصیلات پیش کرے گا اور بینک سول سرونٹس کے اثاثہ جات کو خفیہ رکھنے کے پابند ہوں گے۔

ایف بی آر کی معاونت کے لیے بینکس فوکل پرسن مقرر کریں گے اور بینک اس تمام کارروائی کے لیے ایک محفوظ ای میل ایڈریس کا استعمال کریں گے۔

اس ای میل کی حفاظت کے ذمے دار بینک کے کمپلائنس کے سربراہ ہوں گے جبکہ بینک ایف بی آر کو حلف نامہ جمع کرائیں گے کہ یہ معلومات خفیہ رکھی جائیں گی اور کسی فرد سے شیئر نہیں کی جائیں گی۔

تمام بینک 31 جنوری اور 31 جولائی کو ہر چھ ماہ بعد تفصیلات ایف بی آر کو دیں گے اور اکاؤنٹس کی تفصیلات کی شیئرنگ کے معاملے کی اسٹیٹ بینک نگرانی کرے گا-

ایف بی آر پانچ روز میں بینکوں کو جواب دینے کا پابند ہوگا اور ایف بی آر کسی ٹھوس وجہ کی بنیاد پر کسی بھی سرکاری افسر کے اثاثوں کا ریکارڈ پیش کرنے کی درخواست کو مسترد کرسکے گا-

بینک ایف بی آر سے سرکاری افسران کے اثاثوں کی تفصیلات طلب کرسکیں گے جبکہ بینک اور ایف بی آر کے درمیان کسی تنازع کی صورت ایف بی آر کا فیصلہ حتمی ہو گا۔

اس حوالے سے ایک سینئر عہدیدار نے نے ڈان کو بتایا تھا کہ بینکس، اکاؤنٹس کھولتے وقت پہلے مرحلے میں وفاقی ملازمین کے اثاثوں کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کریں گے اور توقع ہے کہ اگلے مرحلے میں اس شرط کے دائرہ کار کو صوبائی ملازمین تک توسیع دی جائے گی۔

عہدیدار نے مزید کہا کہ اثاثوں تک رسائی پر کوئی محصول نہیں ہوگا بلکہ یہ انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کے تحت نگرانی کا اقدام ہے۔

تاہم بینک ان معلومات کو عوام سے خفیہ رکھیں گے اور اسے کسی بھی قیمت پر عام لوگوں کو جاری نہیں کریں گے۔

واضح رہے کہ یہ آئی ایم ایف کی شرط تھی جس پر سال 2018 میں اتفاق کیا گیا تھا کہ بینکوں کو سرکاری ملازمین کے اثاثوں کے ڈکلریشن تک رسائی کی اجازت ہوگی، اس سلسلے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے قواعد کو حتمی شکل دینے سے پہلے بینکوں سے رابطہ کیا۔

آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کے دوسرے روز ایف بی آر نے 2023 کے ایس آر او 80 کے ذریعے قواعد کو شیئرنگ آف ڈکلیریشن آف ایسٹس آف سول سرونٹ کے نام سے نوٹیفائیڈ کیا۔

یہ قوانین عدلیہ اور مسلح افواج کے ارکان کو چھوڑ کر صرف وفاقی ملازمین پر لاگو ہوں گے۔

عام طور پر بینک اکاؤنٹ کھولنے کے وقت آمدنی کا ذریعہ پوچھتے ہیں اور تنخواہ کے معاملے میں بینک ثبوت کے طور پر تنخواہ کی رسید مانگتا ہے۔

تاہم تنخواہ کی آمدنی کے علاوہ سرکاری ملازم اپنی بنیادی تفصیلات کا اعلان بینک افسر کو ون پیجر کے ذریعے کرے گا۔

اس کے بعد بینک افسر اثاثوں کی تصدیق کے لیے اسے ایف بی آر کو بھیجے گا کہ آیا یہ وفاقی ملازم کے ڈیکلریشن میں ظاہر کیا گیا ہے یا نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں